اک دن مرنا بھی ہے حضور!
" ملک کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا جا رہا ہے۔بجلی کا بل کوئی بھی ادا نہیں کر سکتا، یہ غریب لوگوں کے لئے ہی نہیں بلکہ ہر ایک کے لئے مصیبت بن چکا ہے "
کارکن لور میاں محمد نواز شریف کی تشویش بجا ہے۔بجلی کے لامتناہی بلوں نے عوام کا کچومر نکال دیا ہے۔تاجر برادری کے سرخیل، سابق نگران وزیر گوھر اعجاز بھی عوام کا ناحق تیل نکالنے پر پھٹ پڑے اور آئی پی پیز کے معاہدوں پر نظرثانی کا مطالبہ کر دیا تاکہ بند انڈسٹری کھول کر برآمدات کے ذریعے زر مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کر کے ڈوبتی معیشت کو سہارا دیا جا سکے اور بجلی پیدا نہ کرنے والے آئی پی پیز کو اربوں روپے کی ادائیگیاں رک سکیں اگر ایسا ہو جاتا ہے تو گلشن میں بہار آنے کا محاورہ پورا ہو سکتا ہے اور ن لیگ کی مقبولیت کا گراف کوہ ہمالیہ کو ٹچ کر سکتا ہے۔
میری ناقص رائے میں میاں محمد نواز شریف اور مریم نواز پنجاب کے عوام کے لئے گھر گھر سولر پینل کی تنصیب کا اعلیٰ کام تو کر ہی رہے ہیں، یہ دونوں شخصیات عوام کا خون چوسنے والے ان ڈریکولا نما آئی پی پیز کو بند کرنے جیسے مشکل کام کا بیڑا اٹھا کر ہمیشہ کے لئے امر ہو سکتے ہیں۔
گو اووربلنگ کے حوالہ سے وزیرداخلہ سینیٹر محسن نقوی نے ایف آئی اے کے ذریعے ذمہ داران کا مکو تو ٹھپا ہے مگر زائد بل ڈالنے والے بھی پرانے پاپی ہیں،وہ بھی عادت سے مجبور باز نہیں آ رہے ہیں۔
راقم کا پچھلے ماہ پچاس ہزار بل آیا اور اس ماہ بھی پینتالیس ہزار بل بھرا ہے۔خیر سے دونوں بلوں میں پندرہ ہزار روپے سے زائد مختلف قسم کے ٹیکس ٹھوکے ہوئے ہیں۔ایک دوست نے بتایا،اس کا تھری فیز میٹر ہے۔وہ شام سات بجے سے رات گیارہ بجے تک بتی کا استعمال نہیں کرتا ہے،اس کے بل میں پیک ٹائم کے پینتیس یونٹ ایکسٹرا ڈال دیتے ہیں،جس سے بل کہاں سے کہاں پہنچ جاتا ہے۔میرے ایک دوسرے دوست نے کہا۔پہلے اسے میٹر ریڈنگ کا مسیج آتا تھااب نہیں آتا اور اس کے بل پر میٹر کی تصویر انتہائی دھندلی ہوتی ہے تاکہ کوئی یونٹ صحیح طریقے سے پڑھ نہ سکے۔مجھے ایک عزیز نے یہ بات بھی سنائی کہ اس کے بل پر میٹر کی تصویر اور بل کی ریڈنگ میں تضاد تھا جو اس نے لیسکو کے دفتر جا کر درست کرایا، وہاں بیٹھے آفیسر نے بڑے آرام سے فرما دیا کہ کمپیوٹر کی غلطی سے بل پر غلط ریڈنگ ڈل گئی۔
اس سے یہ بات اخذ ہوئی۔اگر بل کو خوردبین سے نہ دیکھا جائے تو پھر زیادہ پیسے بٹورنے والے بٹورنے میں ذرا بھی دیر نہیں لگائیں گے۔
میں اکثر سوچتا ہوں۔یہ سارے ڈرامے، پھرتیاں اپنے دیس میں کیوں ہوتی ہیں؟بجلی چوری، کنڈا پروگرام بھی اپنے ہاں کیوں چلتا ہے؟
یہ اووربلنگ کا آسیب اپنے ہاں ہی کیوں ہے؟
کیا ہمارے والدین کی تربیت ہی ایسی ہے؟
کیا اساتذہ کرام یہی پڑھاتے ہیں؟
کیا معاشرہ ہی ایسا ہے؟
کیا میڈیا نے بھی یہی چورن بیچنا ہے؟
جھوٹ بولتے جاؤ
دھوکہ دیتے جاؤ
اسی میں سب کی کامیابی ہے۔
ویسے ہے کوئی اووربلنگ کے ماسٹر ان میٹر ریڈروں کو قبرستان کا چکر لگوا کر بتانے والا؟
اک دن مرنا بھی ہے حضور!
قبرستان سے مجھے یاد آیا۔
راقم نے گزشتہ جمعرات بعد از نماز عشاء اپنے دوستوں سینئر صحافیوں داؤد خالد، مقصود خالد و فاروق خالد کے والد محترم باؤ جی کے جنازہ میں شرکت کی۔ جنازہ ادائیگی کے وقت مولوی صاحب نے جنازہ گاہ میں صف باندھے ہزاروں لوگوں کو ہمیشہ کی اصل زندگی کی تیاری کرنے کا درس دیتے ہوئے مخلوق کی خدمت کو جنت پانے کا بہترین نسخہ کیمیائی قرار دیا۔
میں نے تدفین کے بعد مولوی صاحب سے کہا، آپ نے کیا زبردست پتہ کی بات کی ہے، اس سے بہتر ٹیک ہوم مسیج کوئی ہو نہیں سکتا۔
مگر ہم کریں بھی تو کیا،اپنے ہاں ہر کام الٹ ہوتا ہے،مخلوق کے لئے آسانیاں پیدا کرنا ہماری ڈکشنری میں شامل نہیں ہے۔ہم زندہ فرعونوں کی طرح مخلوق کو تنگ کر کے، اذیت دے کر خوشی محسوس کرتے ہیں حالانکہ اگر کوئی مجھ سے پوچھے تو فرض نماز، روزہ، حج، زکوۃ کے بعد قبول اور مقبول عبادت مخلوق کی خدمت میں پنہاں ہے،اس کے مشاہدات ہمارے میڈیسن کے پروفیسر ڈاکٹر نور احمد نور آف نشتر اسپتال ملتان نے اپنی کتاب قبر کے اندرونی حالات میں درج کئے ہیں کہ کس طرح اللہ اور اس کی مخلوق کے لئے زندگی گزارنے والوں کے جسم دفنانے کے کئی سالوں بعد بھی تروتازہ تھے اور اللہ کی نہ ماننے والوں کی قبریں بدبودار تھی۔
اللہ معاف فرمائے۔
خاکسار نے رات کے دس بجے میانی شریف وحشت کی اس جگہ گھپ اندھیرے میں اپنے اردگرد سینکڑوں قبروں کی طرف دیکھ کر سوچا،
یہ ہے ہم سب کی آخری آرام گاہ
جہاں نہ لائٹ، نہ پنکھا، نہ ائرکنڈیشنڈ، نہ نوکر چاکر، نہ گاڑیاں بنگلے، نہ جاہ جلال، نہ بادشاہت، نہ اولاد، نہ کوئی دوست اور تو اور آدھ، پونا گھنٹہ مٹی کے سپرد کرنے بعد سب اپنے اپنے گھروں کو روانہ تو پھر آخر کیونکر ہم اندھے، بہرے ہو کر اپنی اولادوں اور سات نسلوں کے روشن مستقبل کے لئے تجوریاں بھر کر مرنا بھول بیٹھے ہیں؟