بنگلہ دیش فارمولا 

 بنگلہ دیش فارمولا 
 بنگلہ دیش فارمولا 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 یہ اتنی بڑی کمزوری تھی، جس نے بنگلہ دیش کی حکومت کواپنے استحکام کے لئے بھی ہندوستان کا محتاج بنا کر رکھ دیا ہے۔ بلا شبہ یہ ایک سنگین معاملہ ہے، جس کی طرف توجہ دلاتے ہوئے ڈاکٹر عادل اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ دستیاب شہادتوں کے مطابق نہ صرف طاقت کی تمام کنجیاں شیخ حسینہ کی گرفت میں ہیں،بلکہ انہیں نادیدہ قوتوں کی مدد بھی حاصل ہے، جس کی بنا پر انہیں سوائے آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے جو وہ ہونے نہیں دیتیں کسی اور طریقے سے اقتدار سے ہٹانا ممکن نہیں۔ ڈاکٹر عادل ان نادیدہ قوتوں کی وضاحت نہیں کرتے البتہ ان کی کتاب پر اپنے تبصرے میں طارق محمود ہندوستان کے معروف صحافی شیکھر گپتا کی اس رائے کا حوالہ دیتے ہوئے یہ بھی بخوبی کھولتے ہیں کہ مالدیپ سری لنکا و نیپال سے ہندوستان کے تعلقات اچھے نہ ہونے اور چین و پاکستان سے پرانی مخاصمت کی بنا اکیلا رہ جانے  کے باعث ہندوستان شیخ حسینہ کو ہر صورت اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہے گا،جنہوں نے اپنا اقتدار قائم رکھے جانے کی ضمانت کے عوض اسے اپنی بندرگاہ تک رسائی اوراس تک پہنچنے کے لئے گزرگاہ جیسی رعایتیں فراہم کی ہوئی ہیں۔ ڈاکٹر عادل اپنی کتاب میں بنگلہ دیش کی پچاس سالہ تاریخ کو پانچ ادوار میں تقسیم کرتے ہیں جن میں سے پہلا دور شیخ مجیب کا ہے، جن  کے 1974ء میں لاہور میں اسلامی سربراہ کانفرنس میں شرکت کے فیصلے کو جرأت مندانہ قرار دیتے ہوئے وہ بتاتے ہیں کہ اس سے بنگلہ دیش کو پاکستان سمیت برادر اسلامی ممالک سے تعلقات بہتربنانے میں مدد ملی۔

دورحکومت کے آخر میں البتہ انہوں نے یک جماعتی نظام قائم کردیا، جس کا نتیجہ 1975ء میں سواِئے ان کی بیٹی شیخ حسینہ کے شیخ مجیب کے تمام اہل خانہ سمیت قتل کی صورت میں نکلا۔اس سے اگلا دور وہ جنرل ضیاالرحمن کا شمار کرتے ہیں،جنہوں نے اپنے صدارتی طرزحکومت میں  سرحدی، ثقافتی اور مذہبی ورثے کی بنا  پر جو مغربی بنگال سے مختلف تھا بنگالی قومیت پر بنگلہ دیشی قومیت کا رنگ چڑھایا۔ 1976ء سے 1981ء تک اس دور میں ایک اور قابل ذکر کام  جو جنرل ضیاالرحمن نے شیخ مجیب کے نقش قدم پر چلتے ہوئے انجام دیا وہ برادراسلامی ممالک سے تعلقات کو مزید بہتر بنا کر مشرق وسطی میں بنگلہ دیشیوں کے لئے ملازمتوں کے دروازے کھولنا تھا جو زرمبادلہ کی ترسیل کا دوسرا بڑا ذریعہ بن گئیں۔ جنرل ضیاالرحمن 1981ء میں ایک فوجی بغاوت میں قتل ہوگئے، جس کے بعد 1990ء تک جنرلارشاد کی حکومت رہی جو ڈاکٹر عادل کے مطابق  حکمرانی کا تیسرا دور تھا۔ غیر مرکز پذیر طرزِ حکومت کے اس دورمیں سرمایہ دارانہ نظام کے تحت ملک نے خاطر خواہ ترقی کی لیکن بدعنوانی اور اقربا پروری نے اسے گرد آلود کردیا۔ جنرل ارشاد کے  دور کا خاتمہ جمہوری تحریک سے ہوا جو جمہوری حکومت کی بحالی کے لئے جنرل ضیاالرحمن کی بیوہ خالدہ ضیا اور شیخ حسینہ نے مل کرچلائی تھی۔ جمہوری نظام کی بحالی کے بعد2006ء تک کے عرصے کو ڈاکٹر عادل چوتھا دور قرار دیتے ہیں جس کے دوران دونوں خواتین نے باری باری ملک کی وزارت عظمی سنبھالی۔

اس دور میں دیگر کئی نمایاں کامیابیوں کے علاوہ بچیوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی گئی۔چوتھے  دور حکومت کے بعد دوسال تک  نیم فوجی حکومت رہی، جس کے اختتام پر شیخ حسینہ کا پانچواں دور حکومت شروع ہوا جو اب تک چلا آرہا ہے۔  اس دور میں دریائے پدما پر چھ کلومیڑ سے زیادہ لمبے  پل کی تعمیر اور ڈھاکہ میں تیز رفتار میڑو ایسی کامیابیاں ہیں جن پر شیخ حسینہ ور ان کی پارٹی عوامی لیگ بجا طور پر فخر کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ملازمتیں حاصل کرنے والی خواتین کی تعداد میں  غیرمعمولی اضافہ بھی ایک قابل ِ ذکر پیش رفت ہے، جس نے معاشرے میں عورت کو بااختیار بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ڈاکٹر عادل کی نظر میں یہ شاندار کامیابیاں اپنی جگہ، لیکن قانون کی حکمرانی، شفافیت اور احتساب کے فقدان کو وہ  ایک قدم آگے اور دو قدم پیچھے سے تعبیر کرتے ہوئے خدشہ  ظاہر کرتے ہیں کہ ترقی اور اچھی حکمرانی میں عدم توازن کا بحران ان کامیابیوں کو بالآخر  ہڑپ کر سکتا ہے۔ اس بات  پرافسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہ بنگلہ دیش میں جمہوریت کو قتل کرنے کے لئے جمہوریت کو ہی استعمال کیا گیا وہ ملک میں بڑھتی ہوئی کرپشن اوراختیارات کے ناجائز استعمال پر قابو پانے کے لئے اخلاقی قدروں کو مضبوط بنانے، تعلق خاطر کو فروغ دینے اور شہریوں میں برے بھلے کی تمیز پیدا کرنے پر زوردیتے ہیں۔ ڈاکٹرعادل کا کہنا ہے کہ کسی بھی سیاسی وابستگی سے بالا تر ہوکر شہریت کی اقدار کا فروغ حکومت کو شہریوں کے سامنے جوابدہ بنانے میں مدد دیتا ہے جسے وہ جمہوری اصلاحات میں شامل کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ ڈاکٹر عادل خاں کی تجاویز سن کر یوں لگتا ہے گویا وہ بنگلہ دیش کی نہیں، بلکہ پاکستان کی بات کر رہے ہوں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ درحقیقت یہ  وہ ماڈل ہے جسے بنگلہ دیش کے ساتھ ساتھ ہمیں بھی اپنانے کی ضرورت ہے اور جسے پیش کرنے پر ڈاکٹر عادل  بلا شبہ زبردست خراجِ تحسین کے مستحق ہیں۔

مزید :

رائے -کالم -