کیا قیامت واقعی ہی قریب تر ہے؟
پیپلزپارٹی کے بانی،سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو بڑے زیرک سیاستدان اور کرشمہ ساز شخصیت تھے تاہم تھے تو ایک انسان ہی،اس حوالے سے انہوں نے ملک کی تقسیم کے بعد ملک کو سنبھالا تو ان سے کچھ غلطیاں بھی ہوئیں۔میں ان کی فتوحات یاشکست گنوانے کے لئے ذکر نہیں کر رہا،بلکہ اپنی طرف سے مثال دے کر یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ غیر مسلموں کو تو چھوڑیں، ہم مسلمان اور پیارے نبیؐ کے ماننے والے ہیں اور ہم کیا کررہے ہیں، کیا یہ ذمہ داری ہم ہی نے سنبھال لی ہے کہ قیامت کو قریب ترلے کر آئیں،آج جو کچھ بھی ہو رہا ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حساب کے دن قریب سے قریب تر ہوتے جا رہے ہیں اور ہم نے دین کو بھی کھلونا بنا کر رکھ دیا ہے۔ یہ عمل اور رویہ اللہ کو کبھی منظور نہیں ہو سکتا کہ وہ ذات باری تو ماں سے بھی زیادہ رحم دل ہے اسی لئے اب اللہ ج۔ش نے اپنے رسول مکرمؐ کے توسط سے ہمیں آگاہ کیا ہوا ہے کہ جیسے جیسے تمہارے اعمال ہوں گے اسی طرح تم ذمہ دار بھی ہو ؤگے۔ میں نے ذوالفقار بھٹو کا ذکر ان کی صفات گنوانے کے حوالے سے نہیں کیا بلکہ ایک بڑی حقیقت کو آشکار کرنے کے لئے کیا ہے کہ بھٹو کے زوال (حکومتی) کے لئے بہت سے عوامل ہیں لیکن سب سے بڑا بلنڈر 19اپریل 77ء کی وہ پریس کانفرنس تھی جو گورنر ہاؤس لاہور کے دربار ہال میں ہوئی اور بھٹو نے اس کے ذریعے شریعت کے نفاذ کا اعلان کیا تھا۔
اس حوالے سے قارئین کو ناگوار نہ گزرے گا کہ اس دور کے ذکر سے ثابت کروں،پاکستان قومی اتحاد کی تحریک انتخابی دھاندلیوں کے الزام سے شروع ہوئی اور پھر زور پکڑتی رہی،اس میں نئی پھونک قومی اتحاد اور اس وقت کی جمعیت علماء پاکستان کے سیکرٹری جنرل رفیق احمد باجوہ نے میلاد چوک بیرون دہلی دروازے کے ایک جلسہ عام میں تقریر کرتے ہوئے پھونکی۔ وہ شعلہ بار مقرر تھے اور انہوں نے اس جلسے میں قومی اتحاد کے تمام مطالبات کو ایک طرف کرکے سیدھا سادا مطالبہ کر دیا کہ قومی اتحاد کی تحریک نظام مصطفےٰ ؐ کے نفاذ کے لئے ہے،باجوہ صاحب کی اس تقریر کے بعد خان عبدالولی خان جیسے سیکولرلیڈر کو بھی انکار کی جرأت نہ ہوئی اور یہ مطالبہ سرچڑھ کر بولنے لگا اور اس کے بعد نہ صرف رفیق باجوہ کی ڈیمانڈ بڑھی بلکہ ان کے جلسے بھی بڑے ہونے لگے تھے، اسی دور میں 9اپریل کا وہ دن بھی آ گیا جب ریگل چوک میں پولیس اور جلوس والوں کے درمیان جھڑپ ہوئی اور نتیجے میں گولی چل گئی۔یہ ایسا دن ثابت ہوا کہ چودھری اعتزازاحسن جیسے شخص کو اس سانحہ کے بعد صوبائی وزارت سے مستعفی ہونے کا اعلان کرنا پڑا۔ 9 اپریل ہی کو انہوں نے پنجاب اسمبلی کیفیٹریا میں پریس کانفرنس کی اور کسی بھی نوٹس کے بغیر استعفیٰ دینے کا اعلان کر دیا، بھٹو خود بھی لاہور میں تھے اور حالات کا جائزہ لے رہے تھے۔انہوں نے اپنے کارکنوں کو تحمل اور امن کی تلقین کی تھی کہ تصادم نہ ہو تاکہ حالات نہ بگڑیں، پھر وہ دن آ گیا جس روز میرے ہی منہ سے نکلا ”لیڈر گیا“۔
اسی واقعے کی خاطر یہ دہرا رہا ہوں، ڈاکٹر جہانگیر بدر مرحوم کی شادی 18اپریل کو ہوئی اور 19اپریل کو ان کا ولیمہ تھا،میں نے اس دعوت ولیمہ کے موقع پر ٹرانسپورٹر حاجی حیات سے دریافت کیا کہ اطلاعات کیا ہیں، انہوں نے مجھ سے سوال کیا کہ گورنر ہاؤس والی پریس کانفر نس میں جاؤ گے تو میں نے بتایاضرور جاؤں گا اس کے بعد حاجی حیات نے کہا بھٹو صاحب اہم اعلان کریں گے اور سب ٹھیک ہو جائے گا، رات میٹنگ میں مولانا (کوثر نیازی) نے بڑے پر اثر دلائل سے بھٹو کو قائل کرلیا ہے، چنانچہ بعد دوپہر گورنر ہاؤس میں ہم صحافی دربار ہال میں موجود تھے، بھٹو صاحب نے اپنی روایت کے مطابق پرجوش انداز میں خطاب کیا، حتیٰ کہ بی بی سی کے نمائندے (مارک ٹیلی نہیں) کے ایک سوال کے جواب میں کہ آپ جنرلوں کے گھیرے میں ہیں بھٹو نے کرسی پر ہاتھ مار کر کہا ”نو، نو، ”کوئی جرأت نہیں کر سکتا، یہ کرسی بڑی مضبوط ہے“ پھر انہوں نے شریعت کے نفاذ کا اعلان کر کے جمعہ کی چھٹی، شراب بند اور دیگر اعلان کر دیئے، ہم سب حاضرین حیران رہ گئے، میں جب پریس کانفرنس کے بعد گھر واپس آرہا تھا تو راستے میں جہانگیر بدر کے برادر نسبتی تنویر احمد (پروفیسر) مل گئے اور انہوں نے بتایا کہ بھائی جان! آپ کا انتظار کررہے۔جہانگیر بدر کے سسر محترم گورنر ہاؤس تعینات اور رہائش پذیر تھے، جب میں بدر کے پاس پہنچا تو انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا ہوا، میرے منہ سے بے اختیار نکلا آج تمہارا صاحب گیا،اس کے بعد میں دفتر(امروز) چلا آیا تو یہاں بھی وہی بحث تھی اور اجتماعی تنقید پر یہ طے پایا کہ بھٹو نے غلط حکمت عملی اختیار کی ہے وہ خود پی این اے کی وکٹ پر چلے گئے ہیں کہ نظام مصطفےٰؐ کا نعرہ تو ان کا ہے اور عوام انہی کی بات مانیں گے۔ مولانا مفتی محمود پی این اے کے صدر تھے چنانچہ وہی ہوا کہ لوگوں پر کوئی اثر نہ ہوا اور احتجاج مزید پھیل گیا۔
اس کا پس منظر بعد میں معلوم ہوا کہ ایک روز پہلے رات کو میٹنگ ہوئی اس میں ڈاکٹرمبشر حسن اور شیخ محمد رشید بات چیت کے قائل تھے، ڈاکٹر مبشر نے کہا ایمرجنسی لگا کر ایک مرتبہ پھر قومی ملکیت کا اعلان کرنا چاہیے لیکن مولانا کوثر نیازی نے چیئرمین بھٹو کو منا لیا کہ پی این اے کے غبارے سے دین کے مطالبہ والی ہوا نکال دیں اور انہوں نے کنوینس ہو کر اعلان کردیا، جسے عوام نے قبول نہیں کیا تھا۔
یہ تمہید طولانی اس لئے ہے کہ عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی نے بالواسطہ طور پر وہ بات کر دی ہے جس کی تحریک انصاف والے تردید کرتے رہے ہیں۔ بیگم بشریٰ عمران نے تو براہ راست سعودی حکومت کے خلاف بہت بڑی چارج شیٹ جاری کر دی،ان کا یہ کہنا کہ عمران خان کی پیدل مدینہ شریف میں حاضری سعودی حکمرانوں کو ناگوار گزری اور انہوں نے جنرل باجوہ سے کہا ”آپ کس کو لے آئے ہو، ہم تو شریعت ختم کرنے جا رہے ہیں“ اس کے نتیجے میں جو بحث ہونا تھی وہ شروع ہو گئی اور پس منظر میں جاری مبینہ مفاہمت کی کوششیں ٹھپ ہو کر رہ گئیں ہیں اور یہ احساس ہونے لگا ہے کہ اب فیصلہ اکھاڑے ہی میں ہو گا اس طرح پس پردہ مذاکرات کے غبارے سے بھی ہوا نکل گئی ہے۔ تحریک انصاف کو احتجاج کرنا ہے اور انتظامیہ نے روکنا ہے کہ اگلے ہی روز بیلاروس کا وفد آنے والا ہے اور یہ ایک بڑی آزمائش ہے کہ بیلا روس کے وفد کی آمد کے دنوں میں ہنگامہ آرائی شروع کر دی گئی ہے،جو پرسوں آ رہا ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ جو کچھ ہو رہا ہے، اس کے حوالے سے ہمیں 15سو سال پہلے حضور اکرمؐ کی طرف سے آگاہ کیا گیا تھا کہ شاید ہم ایسی حرکات نہ کریں جو قرب قیامت والی ہوں لیکن ہم کئے چلے جا رہے ہیں اور بیگم بشریٰ عمران نے بھی اپنی شہرت کے لئے بڑی بات کہہ دی ہے، حالانکہ وہ خود اسی سعودی حکومت کے معزز مہمان تھے جن کے بارے میں دین سے منحرف ہونے کا الزام لگا دیا گیا ہے، حکومت کے لئے یہ بھی پریشانی پیدا کرنے کی کوشش ہے کہ اب بھی سعودی عرب پاکستان کی معیشت کے حوالے سے سب سے بڑا ڈونر ہے۔
یاد رکھیں!اللہ تعالیٰ نے خود سورۂ رحمن میں فرما دیا ہے ”دنیا میں جو کوئی بھی آیا اسے ایک روز فنا ہونا ہے اور باقی اللہ کی ذات رہے گی۔