زین قریشی اور دستارِ مخدومی

   زین قریشی اور دستارِ مخدومی
   زین قریشی اور دستارِ مخدومی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ملتان کے تین مخدوم، جاوید ہاشمی، سید یوسف رضا گیلانی اور شاہ محمود قریشی سیاسی میدان میں اپنی اپنی تاریخ رکھتے ہیں تاہم آج کل شاہ محمود حسین قریشی جو تاریخ رقم کررہے ہیں، وہ ان کی سیاسی زندگی کا ایک نیا باب ہے۔ وہ تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان کی طرح جیل میں ہیں اور رہائی کی کوئی صورت نظر نہیں آتی، البتہ انہیں یہ سہولت ضرور حاصل ہے کہ ان کے مقدموں کی سماعت کھلی عدالتوں میں ہوتی ہے اور وہ کبھی لاہور اور کبھی اسلام آباد کی عدالت میں لے جائے جاتے ہیں۔ شاہ محمود قریشی نے اپنے والد مخدوم سجاد حسین قریشی کی وفات کے بعد دستارِ مخدومی سنبھالی تھی۔ مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی کے ہوتے ہوئے وہ تحریک انصاف میں شامل ہوئے اور پھر عمران خان نے انہیں پارٹی کا وائس چیئرمین بنا دیا یعنی ان کی پوزیشن تحریک انصاف میں نمبرٹو کی ہو گئی،جب تحریک انصاف اقتدار میں تھی ان دنوں بھی یہ افواہیں اڑتی تھیں کہ اسٹیبلشمنٹ مائنس عمران خان فارمولا لانا چاہتی ہے اور شاہ محمود قریشی کو اس کے لئے تیار کررہی ہے۔ پھر جب 2022ء میں عمران خان کو عدم اعتماد کے ذریعے وزارت عظمیٰ سے محروم کیا گیا تو کہا جانے لگا کہ اب تحریک انصاف میں ایک علیحدہ گروپ بنا کر شاہ محمود قریشی کو آگے لایا جائے گا۔ مخدوم شاہ محمود قریشی کے ماضی کو دیکھتے ہوئے یہ کوئی انہونی بات بھی نہیں تھی مگر پھر سب نے دیکھا شاہ محمود قریشی ڈٹ گئے اورانہوں نے عمران خان سے بے وفائی کو خارج از امکان قرار دیا۔ اس کے بعد وہ بھی پکڑ دھکڑ کی زد میں آ گئے۔ 9مئی کا واقعہ ہوا تو اس دن وہ کراچی میں تھے۔ اس کے باوجود ان کے خلاف کئی مقدمات درج ہو گئے۔اس سے صاف لگتا ہے کہ انہیں توڑنے کی کوشش کی گئی مگر وہ نرم نہ ہوئے۔ انہیں پارٹی کارکنوں کی طرف سے عمران خان کا جاں نثار ساتھی کہا جانے لگا، سیاسی طور پر ان کا قد کئی گنا بڑھ گیا۔ وہ باہر ہوتے تو تحریک انصاف کو وہی چلاتے، انہیں مسلسل گرفتار رکھ کر اسٹیبلشمنٹ نے یہ ہدف تو حاصل کرلیا کہ تحریک انصاف دوسرے درجے کے رہنماؤں کی قیادت میں فیصلے کرے، جن کا ماضی میں سیاسی قد کاٹھ کبھی اتنا نمایاں نہیں تھا۔

اس پس منظر میں جب ان کے بیٹے زین قریشی کے بارے میں یہ خبریں آنا شروع ہوئیں کہ وہ آئینی ترمیم کے معاملے پر حکومتی حلقوں سے رابطے میں ہیں تو ہر ایک نے انہیں بے بنیاد اور من گھڑت قرار دیا۔ بھلا کیسے ممکن ہے کہ زین قریشی اپنے والد کی قربانیوں کو پس پشت ڈال کے ایسی حرکت کریں۔ جب آئینی ترامیم کے لئے نمبر پورے کرنے کا بڑے پیمانے پر شوروغل شروع ہوا تو تحریک انصاف نے اپنے ارکان اسمبلی کو ہدایت کی کہ وہ روپوش ہو جائیں اور محفوظ مقام پر چلے جائیں، سب کو یہی کہا گیا کہ وہ خیبرپختونخوا پہنچیں جہاں تحریک انصاف کی حکومت ہے اور اغواء ہونے کا کوئی ڈر نہیں ہوگا۔ تحریک انصاف کی سیاسی کمیٹی کے سب ارکان سے رابطے رہتے ہیں تاہم 16اکتوبر کو زین قریشی سے اچانک رابطہ منقطع ہو جاتا ہے، کسی کو کچھ نہیں معلوم ہوتا وہ کہاں ہیں۔ ان کا فون نمبر واٹس اپ بند ملتا ہے، اس پر سب کو تشویش ہوتی ہے، حیران کن طور پر اس گمشدگی کے حوالے سے قریشی خاندان کی طرف سے بھی کوئی تشویش یا ٹویٹ سامنے نہیں آتا، اسی دوران ایک واقعہ رونما  ہوتا ہے اور لاہور میں زین قریشی کی اہلیہ کو اس وقت نامعلوم افراد اغوا کرکے لے جاتے ہیں جب وہ اپنے گھر میں داخل ہو رہی ہوتی ہیں، اس اغواء کے بارے میں شاہ محمود قریشی کی بیٹی مہربانو قریشی فوراً ٹویٹ کر دیتی ہیں، پھر حیران کن طورپر چند گھنٹوں بعد زین قریشی کی اہلیہ گھر پہنچ جاتی ہیں۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے ان کے اغواء یا واپسی کے بارے میں کوئی فوٹیج جاری نہیں کی جاتی، اب پارٹی کے بعض رہنما یہ کہہ رہے ہیں ایک طرف زین قریشی کی کئی دنوں سے گمشدگی کے باوجود مہربانو قریشی یا زین قریشی کی اہلیہ کوئی ٹویٹ نہیں کرتیں، دوسری طرف ان کی اہلیہ کے مبینہ اغواء کا فوراً ٹویٹ آجاتا ہے۔ کیا یہ سب کچھ کسی طے شدہ منصوبے کا حصہ تھا؟ تاکہ یہ باور کرایا جا سکے زین قریشی پر بہت دباؤ ہے کہ وہ آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دیں، مگر وہ ڈٹے ہوئے ہیں اس سارے معاملے کو مزید پراسرار اس ویڈیو بیان نے بنا دیا جو زین قریشی نے اس وقت جاری کیا جب 26ویں آئینی ترمیم سینٹ سے منظور اور قومی اسمبلی سے شق وار منظور کی جا رہی تھی، گویا اس وقت قومی اسمبلی میں حکومت کے نمبر پورے تھے۔  انہوں نے کہا کہ اگر کوئی ثابت کر دے میں پارلیمنٹ ہاؤس کے قریب بھی نظر آیا ہوں تو استعفا دے کر سیاست چھوڑ دوں گا ان کے اس ویڈیو بیان میں جذباتی تقریر زیادہ ہے حقائق سے پردہ کم ہٹایا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ رات گئے یہ ویڈیو کس نے اور کہاں بنائی اور کس نے سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کی اگر آپ چھ دن سے کسی کے رابطے میں نہیں تو پھر اچانک یہ خیال کیسے آ گیا کہ منظر عام پر آنے کا وقت آ گیا ہے۔ چھ دن تک افواہیں گردش کرتی رہیں جن کی وجہ سے پارٹی کے کچھ دیگر ممبران بھی منحرف ہونے کے بارے میں سوچنے لگے کہ اگر شاہ محمود قریشی کا بیٹا پارٹی سے بے وفائی کر سکتا ہے تو ہمیں بھی ڈیل کرلینی چاہیے۔ سوال تو یہ بھی ہے شاہ محمود قریشی نے انہیں خیبرپختونخوا میں روپوش ہونے کی ہدایت کی تھی۔ اس پر انہوں نے کیوں عمل نہیں کیا۔بہت سی باتیں ہیں جن کی وجہ سے زین قریشی اس وقت شدید تنقید کی زد میں آ چکے ہیں، کہا یہ جا رہا ہے کہ وہ ترمیم کے حق میں ووٹ دینے کی حامی بھر چکے تھے تاہم انہیں ریزرو رکھا گیا تھا کہ اگر نمبر پورے نہیں ہوتے یا کوئی وعدہ کرکے مکر جاتا ہے تو اس کی جگہ انہیں پہنچایا جا سکے۔

اب ملتان کے عوام ملک عامر ڈوگر کی مثالیں دے رہے ہیں، جو سختیوں اور دباؤ کے باوجود پارٹی کے ساتھ کھڑے رہے، ان کے پلازوں، پٹرول پمپ، ڈیرے اور ٹرانسپورٹ اڈے کو کئی بار سیل کیا گیا مگر وہ پارٹی کے خلاف استعمال ہونے پر آمادہ نہ ہوئے۔ زین قریشی اب لاکھ صفائیاں دیتے رہیں شک کا داغ ان کے سیاسی کیرئیر پر لگ چکا ہے، روپوش ہونا کوئی انہونی بات نہیں لیکن اپنی سیاسی قیادت سے بھی رابطہ نہ رکھنا ایک عجیب بات ضرور ہے۔جس دن ان کی اہلیہ کولاہور سے مبینہ طور پر اغواء کیا گیا تھا اگر انہوں نے اس وقت ویڈیو بیان جاری کیا ہوتا اور اس عزم کا اظہار کرتے کوئی دباؤ انہیں آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دینے پر مجبور نہیں کر سکتا تو آج ان کے بیان کا تمسخر نہ اڑایا جا رہا ہوتا۔ زین قریشی نے اپنے بیان میں اپنے آباؤ اجداد کی سیاسی قربانیوں کا ذکر کیا ہے۔ حالانکہ قربانی صرف ان کے والد شاہ محمود قریشی نے دی ہے اور زین قریشی نے اپنے مشکوک عمل سے ان کی قربانیوں کو بھی گہنا دیا ہے۔ زین قریشی کو سیاست میں آئے زیادہ عرصہ نہیں ہوا۔ وہ بھی موروثی سیاست کی وجہ سے آگے آئے۔ اب دیکھتے ہیں پارٹی ان کے بارے میں کیا فیصلہ کرتی ہے، دستار مخدومی کو داغ لگتا ہے یا شاہ محمود قریشی کی قربانیوں کے صدقے دھل جاتا ہے۔

مزید :

رائے -کالم -