جبر اور جمہوریت۔۔۔کلثوم نواز شریف کی سیاسی جدوجہد کی چشم کشا کہانی ،خود انکی زبانی...قسط نمبر 12
بیگم کلثوم نواز شریف نے اپنی سیاسی جدوجہد کے دوران پہلی بار ایسی شعلہ بار تقریریں بھی کیں کہ کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا وہ ایک عام سی خاتون اسقدر توانا آواز اور ادراک بھی رکھتی ہے،انہوں نے کارگل وارپر جنرل پرویز مشرف کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا اور اسکے مضمرات سے قوم وک آگاہ بھی کیا، 18 جون، 2000ء کے دن جو تقریر کی اسکو کتاب میں ’’خوفناک سازش‘‘ کا نام دیا گیا ہے ۔وہ کہتی ہیں
’’کارگل پر بات کرنے سے پہلے میں یہ ضرور سمجھتی ہوں کہ 1971ء کی جنگ کے نتیجہ میں مملکت خداداد پاکستان کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کی سازش کو بے نقاب کروں۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد اگر کوئی محب وطن کسی کمیشن کا مطالبہ کرتا تو وقتی طو رپر تو وہ پابند سلاسل ہوجاتا مگر قوم کو حقائق سے آگاہ کروایا جاتا۔ سقوط ڈھاکہ پر کمیشن تو بنا مگر اس کی رپورٹ آج تک کسی آمر کے ہاتھوں دبی ہوئی ہے۔ یہ عظیم ملک برصغیر کے اندر لاتعداد قربانیوں اور شہداء کے خون سے حاصل کیا گیا تھا۔ اس کے پیچھے برصغیر کے اولیاء اللہ کی دعائیں تھیں۔ نبی کریم ﷺ کا اپنی امت پر خصوصی کرم تھا کہ اس خطے میں نہتے مسلمان نے اپنے لئے ملک حاصل کیا۔ میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ اس کے پیچھے قلندر لاہور ڈاکٹر اقبالؒ کا دو قومی نظریہ مضمر تھا۔ قائداعظمؒ کی خلوص نیت اور قابلیت شامل تھی۔ کروڑوں ماؤں اور بہنوں کی دعائیں شامل حال تھیں اور میرے کئی بھائی اور بیٹوں کا اللہ کی رضا کے لئے خون دینا شامل تھا۔ اس ملک کو حاصل کرنے کے لئے آگ اور خون کے کئی دریا عبور کرنے پڑے، عصمتیں لٹیں، گردیں نیزوں پر چڑھیں، سینوں نے برچھیاں کھائیں مگر افسوس صد افسوس اس پوری تاریخ کو پیچھے رکھ کر اس وقت کے ایک آمر نے اپنے چند حواریوں کے ساتھ اقتدار کے نشہ میں چور ہوکر بلکہ شراب کے نشہ میں چور ہوکر اس سلطنت خداداد پاکستان کو تھوڑے سے دنوں کی جنگ کے نتیجے میں دو حصوں میں تقسیم کروادیا بلکہ ایک جسم کے دو ٹکڑے کردئیے۔صرف اور صرف اپنی آمریت کو طول دینے کے لئے وقت کے میر جعفر اور صادق نے نہ صرف ملک کے دو حصے کئے بلکہ ایک سازش کے تحت ایک لاکھ کے قریب ہمارے سپوت جو سروں پہ کفن باندھ کر گئے تھے، میدان جنگ میں بے یارومددگار چھوڑ دیے گئے جس کے نتیجے میں انہیں دشمن کی اذیت ناک جیلوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اگر اس وقت کوئی محب وطن سقوط ڈھاکہ کی انکوائری کا مطالبہ کرتا اور اس انکوائری کو منظر عام پر لانے میں کامیاب ہوجاتا تو میں وثوق سے کہتی ہوں کہ آج کارگل جیسے آپریشن میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے کوئی بھی معمولی سوجھ بوجھ رکھنے والا شخص ہزار بار سوچتا۔ اگر اس سقوط ڈھاکہ کے سول، فوجی، سیاسی اور ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے ذمہ داروں کو منظر عام پر لاکر ان کو قرار واقعی سزائیں دی جاتیں تو اس کے بعد کسی بھی آمر یا طالع آزما کو ملک کی سالمیت سے کھیلنے کی جرأت نہ ہوتی۔ ملک عظیم قربانیوں کے نتیجہ میں بنتے ہیں۔ ان سے آمر اور طالع آزما کھلونے کی طرح کھیلتے نہیں ہیں۔
جبر اور جمہوریت۔۔۔کلثوم نواز شریف کی سیاسی جدوجہد کی چشم کشا کہانی ،خود انکی زبانی...قسط نمبر 11پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
مگر جناب ریٹائرڈ جنرل صاحب!(پرویز مشرف جو اقتدار پر براجماں تھے) اس دفعہ شہداء کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔ آپ کی اس سرکش مہم جوئی کو ضرور قوم کے سامنے بے نقاب کریں گے کہ اتنا بڑا قدم کیونکر اٹھایا گیا؟ یہ 1971ء نہیں 2000ء ہے اور قوم اس جواب کی منتظر ہے۔ اس دفعہ فیصلہ ہوکر رہے گا۔ کارگل پر کمیشن بنانا ہی پڑے گا اور ذمہ دار لوگوں کو اس کا سامنا کرنا ہوگا۔
یہ کوئی معمولی بات نہیں۔ تقریباً 500 سے زائد میرے بھائیوں اور بیٹوں نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا، اللہ سے کیا ہوا وعدہ نبھایا، ان کی قربانی کو رائیگاں نہیں ہونے دیں گے۔ آج قوم کے ذہن میں مختلف خدشات اور سوالات ابھررہے ہیں:
کیا یہ کارگل ایکشن ملک پر کوئی بڑی جنگ مسلط کرنے کا پیش خیمہ تو نہیں تھا؟
کیا یہ کارگل ایکشن ملک کی معاشی حالت کو تباہ کرنے کی منصوبہ بندی تو نہ تھا؟
کیا یہ کارگل ایکشن مسئلہ کشمیر کو سبوتاژ کرنے کی کوئی سازش تو نہیں تھا؟
کیا کارگل ایکشن پاک فوج کی عسکری قوت کو نقصان پہنچانے کی ناکام کوشش تو نہیں تھا؟
کیا یہ کارگل ایکشن پاکستان کی خارجہ پالیسی کو دنیا میں، بالخصوص اسلامی ممالک میں ناکام کرنے کا کوئی منصوبہ تو نہ تھا؟
کیا معیشت کو ہمیشہ کے لئے سودی نظام کے تسلط میں رکھنے کا کوئی ایسا پروگرام تو نہ تھا؟ جس کے نتیجہ میں قوم ورلڈ بینک، آئی ایم ایف اور دوسری عالمی مالیاتی اداروں کی زنجیروں میں جکڑی رہے۔
قوم کے ذہن میں مختلف سوالات آرہے ہیں، ان کا جواب کوئی غیر جانبدار کمیشن بنے گا تو منظر عام پر آئے گا۔ میری پاک دھرتی کے جانبازوں کے خون کا حساب کون دے گا؟ ریٹائرڈ جنرل! تمہاری خود سرپلاننگ سے آج میری کتنی بہنیں بیوہ اور کتنے بچے یتیم ہوئے ہیں۔
ان سوالوں کا جواب ہم حکومت کے خود ساختہ ترجمان سے نہیں سننا چاہتے کیونکہ ترجمان پر اب یقین نہیں رہا۔ جس ترجمان، سپر سیڈ بریگیڈیئر کو میرٹ کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے ’’اعلیٰ کارکردگی‘‘ کی بنا پر میجر جنرل کے عہدہ پر فائز کیا گیا ہو اس ترجمان سے کیا خیر کی توقع کی جاسکتی ہے۔ فوج میں بہت سے قابل بریگیڈیئر ہیں جو جذبہ حب الوطنی سے سرشار ہیں، مگر ایسے شخص کو ترجمان کی ذمہ داری دے کر ISPR کا انچارج لگایا گیا ہے جس کا کام صرف اور صرف شریف فیملی کی کردار کشی کرنا ہے۔ ہم ایسے سپرسیڈ بریگیڈیئر کی ترجمانی نہیں مانتے۔ کیا فوج میں اس عہدہ کے لئے اور کوئی ذمہ دار آفیسر نہیں؟ ہاں میرے ہزاروں بھا ئی ہیں مگر افسوس کہ وہ کسی فرد واحد کے غلام بننا پسند نہیں کرتے۔ ’’محنت اورلوگ کریں، مزے ترجمان کریں‘‘ ایسے ترجمان کی طرف سے کو ئی بھی بیان حقیقت پر مبنی تصور نہ کیا جائے۔ قوم کو صرف ایک غیر جانبدار کمیشن کی رپورٹ کا انتظار ہے۔ اگر سچائی ہے تو ہمارے سوالوں کا جواب دیں۔ میں ریٹائرڈ جنرل کو چیلنج کرتی ہوں کہ وہ ٹیلی ویژن پر آکر ہمارے سوالوں کا جواب دیں۔ ہاں میں ریٹائرڈ جنرل کو چیلنج کرتی ہوں کہ وہ ٹیلی ویژن پر آکر ہمارے سوالوں کا جواب دے کر قوم کو مطمئن کریں اور ہمارے ساتھ کارگل ایشو پر مناظرہ کریں۔ یہ میرا کھلا چیلنج ہے۔ ورنہ اپنے لئے راستہ کا تعین کریں۔ جو قوم کا مخلص ہے تمہاری قید میں ہے۔ اس کی زندگی کو تم سے خطرہ ہے بلکہ تم سے تو سالمیت پاکستان کو بھی خطرہ ہے۔ وہ سلاخوں کے پیچھے بیٹھ کر بھی وطن اور اسلام کی سربلندی کی بات کرتا ہے۔ کارگل پر نواز شریف کا کمیشن بنانے کا مطالبہ مستقبل میں ملک کے خلاف سازش کرنے والوں کا راستہ روکنا ہے۔
بجٹ آچکا ہے۔ غریب کا خون مزید چوساجائے گا، گھر گھر چولہے ٹھنڈے پڑے ہوئے ہیں، ریٹائرڈ جنرل کو غیر ملکی دوروں سے فرصت نہیں۔ موجودہ حکومت کے بے سود بیرونی دوروں کی تعداد ہمارے وقت سے تین گنا زیادہ ہے اور اس پر یہ کہ سارے دورے بن بلائے ہیں۔ دوران سفر جو لوگ ساتھ جارہے ہوتے ہیں، ذرا قوم کو ان کے ناموں کی لسٹ بھی دکھادیں کہ جناب کی رفیق سفر کون سی عظیم شخصیات ہیں اور ان کا حکومت اور سیاسی معاملات سے کیا تعلق ہے؟ اگر دینی مدارس کو چھیڑا گیا تو حکومت کو اس کا پورا پور احساب دینا پڑے گا۔ دینی مدارس کو بچانے کے لئے ہم کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔ اسلام اور تبلیغی مراکز ہی تو ہمارا اثاثہ ہیں۔ پہلے ناموس رسالتﷺ پر رکیک حملے کئے گئے، حال ہی میں وزیر داخلہ نے ایک شرمناک بیان دے کر دو قومی نظریے کا مذاق اُڑایا۔ اب یہ لادینی حکومت اسلامی مدارس کے پیچھے پڑ کر اپنے آقاؤں کو خوش کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ حکومت کو غیر مسلم قوتوں کے ایجنڈے پر کام کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دیں گے۔ جن کے اشاروں پر حکومت کام کررہی ہے، وہ اور یہ خدا کے عذاب کو دعوت دے رہے ہیں۔
نواز شریف صاحب کبھی قومی امور کے بارے میں کوئی فیصلہ کرتے تو وہ قرآن و سنت سے رہنمائی حاصل کرکے کرتے تھے۔ نفل ادا کرکے استخارہ کرتے، اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے جو رہنمائی ہوتی اس کے مطابق قومی مفاد میں فیصلہ کرتے، ایٹمی دھماکہ کرتے وقت نواز شریف صاحب نے نفل پڑھے، استخارہ کرکے اللہ تعالیٰ سے رہنمائی حاصل کی کہ ’’جہاں تک ہوسکے اپنے دشمن کے مقابلے میں بھرپور عسکری طاقت کے ساتھ تیار رہو۔‘‘
کچھ لوگوں کے ساتھ نہ دیتے ہوئے بھی نواز شریف صاحب نے ملک کی بہترین کے لئے ایٹمی دھماکہ کرنے کا فیصلہ کیا اور اللہ کے فضل و کرم سے پاکستان کو دنیا کی چھٹی اور اسلامی دنیا کی پہلی ایٹمی قوت بنادیا۔ اس شخص کی ملک کے ساتھ محبت اور وابستگی میں کوئی شک نہیں کرسکتا۔ انہوں نے کئی دفعہ ملک کو بچانے کے لئے اپنے اقتدار کی قربانی دی۔ اس دفعہ بھی ملک کی سلامتی کو جب خطرہ لاحق ہوا تو نواز شریف نے اپنے اقتدار کی قربانی دے کر اپنا ملک بچالیا۔ ایک سچے مسلمان اور پاکستانی ہونے کے ناطے نواز شریف یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ ناپختہ سوچ رکھنے والے لوگوں کے خلاف ضرور انکوائری ہونی چاہیے اور غلط پلاننگ کی وجہ سے ملک کو جو جانی اور مالی نقصان ہوا اس کا ازالہ ایسے لوگوں کو منظر عام پر لاکر ہی کیا جاسکتا ہے۔ اس دفعہ میں ضرور مسجھتی ہوں کہ کارگل پر کمیشن مقرر کرکے یہ ثابت کردیا جائے کہ پچھلے باون سالوں میں وہ کون سے بدبخت لوگ ہیں؟ جن کی وجہ سے پاکستان کو نقصان پہنچ رہا ہے اور یہ ملک کب تک آمریت کا متحمل رہے گا؟ ہم 14کروڑ عوام کی رائے پر فرد واحد کی ناپختہ سوچ کو کبھی مسلط نہیں ہونے دیں گے۔ کارگل کمیشن پر دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔ ملک کے لئے قربانی دینے والا تو آج پابند سلاسل ہے اور ملک کے وقار کو خراب کرنے، قومی دولت لوٹنے، قیمتی جانوں کو قربان اور سالمیت کو خطرے میں ڈالنے والے خود ساختہ حکمران بنے بیٹھے ہیں، وہ ناصرف دو قومی نظریہ کے لئے خطرہ ہیں بلکہ پاکستان کے اندر اسلامی نظریہ و فکر کے لئے بھی خطرہ بن چکے ہیں۔ ہم پاکستانی ہیں، ہمارا جینا مرنا پاکستان کے لئے ہے اور یہ خود ساختہ حکومت اپنی باقی ماندہ ریزٹائرڈ لائف یورپ کے کسی بیچ پر گزارنے کا پروگرام بناچکی ہے، ان کا یہ سہانا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا، میں پورے وثوق کے ساتھ قوم کو بتادینا چاہتی ہوں کہ قوم انہیں بھاگنے نہیں دے گی اور انہوں نے ملک کو جونقصان پہنچایا ہے ہم اس کا پورا حساب لے کر چھوڑیں گے۔
(جاری ہے۔۔۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)