منفی سوچ اور سوشل میڈیا
مثبت اور منفی سوچ میں فرق کو لوگوں پر واضح کئے بغیر جاندار اور متحرک معاشرے کی تعمیر و ترقی ناممکن ہے اور متحرک معاشرہ ہی ترقی کی ضمانت ہے۔ ضمانت دینے کے لئے صاحب حیثیت لوگ اپنا کردار ادا کرتے ہیں، صاحب حیثیت کی تعریف بڑی جامع ہے اور یہ جامعیت بھی مثبت سوچ سے ہی مشروط ہے، لہٰذا لوگوں کی تعلیم وتربیت کے لئے ضروری ہے کہ اس سارے عمل میں سوچ بنانے پر خصوصی توجہ دی جائے،لوگوں کو اس موضوع کی حساسیت سے آگاہ کیا جائے اور اہل عقل و دانش اپنا حصہ بقدر جثہ کردار ادا کریں اور پھر منفی سوچ کے خلاف ایک بیانیہ بن جائے تاکہ لوگ مثبت سوچ رکھنے کی افادیت سے پوری طور پر آگاہ ہو سکیں۔ (شاید کہ ترے دل میں اتر جائے مری بات)
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ بوقت پیدائش ہر شخص کورا ہوتا ہے اس بات کا تذکرہ قرآن مجید میں بھی کیا گیا ہے اس کے بعد والدین کا کردار ہوتا ہے، شاید اسی لئے کہا جاتا ہے کہ کسی بھی انسان کی سب سے پہلی درسگاہ اس کی ماں کی گود ہوتی ہے اور یہی گود بچے کے مستقبل کا فیصلہ کرتی ہے اور پھر والد کا رول ہے، اساتذہ اور درسگاہ بھی انسان کو بنانے سنوارنے میں اہم کردارادا کرتے ہیں، معاشرہ مجموعی طور پر اپنا حصہ ڈال رہا ہوتا ہے،لہٰذا کسی بھی علاقہ کی نوجوان نسل کے کردار کی تعمیر اس وقت تک ناممکن ہے جب تک والدین، اساتذہ اور معاشرہ اپنا بھرپور کردار ادا نہیں کرتے۔ معمولی سا غیر ذمہ داری کا مظاہرہ نسلیں تباہ کردیتا ہے اور اس کا خمیازہ آنے والی نسلوں کو بھگتنا پڑتا ہے، مثبت سوچ کی بدولت بیدار مغز اور باشعور لوگ تخلیق کئے جاتے ہیں اور منفی سوچ کنفیوز،جھگڑالو، لالچی، حریص، بدکردار، دہشت گرد، نکھٹو، ڈاکو اور چور اچکے لوگ پیدا کرنے کا باعث بنتی ہے،اس لئے ہم سب کو اس بات کا شعوری احساس ہونا چاہئے کہ ہر دو سوچ کی تخلیق کے محرکات کیا ہیں اور منفی سوچ کو مثبت پیرائے میں کیسے تبدیل کیا جا سکتا ہے، اس بات کا بھی ہم سب کو اندازہ ہونا ضروری ہے کہ اگر ایسا کرنے میں ہم ناکام ہو جاتے ہیں تو اس کے کیا مضمر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
بنیادی طور پر دماغ کا اس سارے معاملے میں اہم کردار ہے۔ ساخت کے اعتبار سے دماغ اور اس کی تین صفات بڑی اہم ہیں۔ شعور، تحت شعور اور لاشعور۔جب بھی کوئی بات ہم پہلے دن سنتے ہیں تو یہ ہمارے شعوری حصے میں محفوظ ہو جاتی ہے اور اگر اس بات کی نوعیت کو ہم تبدیل نہیں کرتے اور وہ ایک رات دماغ میں اپنی اصلی حالت میں رہتی ہے تو اگلے دن وہ تحت شعور کا حصہ بن جاتی ہے اور اس کے بعد دوسری رات وہ شعور کی دنیا کا سفر طے کرتی ہوئی لاشعور میں پہنچ جاتی ہے، اس کے بعد تو پھر دماغ ہے اور وہ بات۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ بات ہے کیا، اگر تو وہ منفی سوچ کی حامل ہے تو اس کے نتائج تباہ کن ہو نگے اور اگر مثبت ہے تو یقینا اچھا ہے، اس سارے عمل کو کنڈیشننگ بھی کہتے ہیں اور اسی سے سوچ کے سوتے پھوٹتے ہیں۔ اچھے اور برے انسان بنتے ہیں،لہٰذا کندیشننگ کافی نہیں ہوتی بلکہ اس کا نفسیاتی تجزیہ بہت ہی ضروری ہے تاکہ دماغ میں ایک فلٹر لگا دیا جائے جو منفیت کو اثبات میں یا تو تبدیل کردے یا پھر علیحدہ کردے۔ سوفٹویر یہ کام زیادہ بہتر انداز سے کر سکتا ہے، یہی وجہ ہے آج کل یہ بات زبان زد خاص و عام ہے کہ لوگوں کا سوفٹویر تبدیل کرنا ضروری ہوتا ہے، ضروری تو ویسے بہت کچھ ہوتا ہے۔ تاہم ہم ایڈہاک ازم کے مرض کے مارے ہوئے لوگ ہیں اور مارے کو مزید مارنے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی، کاش ہماری شروع سے ہی تعلیم وتربیت ٹھیک ہو جاتی، بدقسمتی تو یہ بھی ہے کہ ہمیں تعلیم وتربیت کی حدود وقیود سے بھی پوری طرح آگاہ نہیں کیا گیا ہے، اسی لئے توہم تیتر بٹیر ہو رہے ہیں۔ ہماری سوچ پوری طرح نہ تو مشرقی ہے اور نہ ہی مغربی اور پھر جدت کے لفظ کا ہم جا بجا استعمال کرنا تو جانتے ہیں لیکن جدت کو صحیح معنوں میں اپنے اوپر لاگو کرنا ہمارے لئے اس لئے ممکن نہیں ہے کہ ہم نام نہاد روایت پرست لوگ ہیں اور روایت پرستی ہمارے نزدیک شخصیت پرستی ہے،شخصی محاسن اور عیوب اور ہمارا اندھا پن، انکھیوں پر چڑھے مختلف قسم کے ککرے اور لاشعور میں گڈ مڈ ہوئی چیزوں کا نفسیاتی تجزیہ ہمارے سارے امراض کا علاج ہے۔ علاج بالغذا کا مشورہ سیانے دیتے ہیں،لہٰذا سب سے پہلے منفی اور مثبت سوچ کے بارے میں لوگوں کو آگاہ کرنا ہو گا، انہیں بتانا ہو گا کہ اگر کسی بات پر غصہ آجائے تو فوری طور پر معاف کر کے منفی سوچ کو مثبت میں تبدیل کیا جا سکتا ہے، اسی طرح اگر کسی کے بارے میں حسد کے جذبات پیدا ہو جائیں تو اس بات کو نظر انداز کر کے منفی سوچ کو مثبت سوچ میں تبدیل کیا جا سکتا ہے، اگر کسی کا ماضی بھیانک ہے اور وہ اپنی اصلاح کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو اس کے رویے میں تبدیلی کی بنیاد پر اس کے بارے میں پائی جانے والی منفی سوچ کو مثبت میں تبدیل کیا جا سکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ مزید یہ کہ منفی سوچ کس حد تک خوفناک ہے اور اس سے جان چھڑانا کتنا ضروری ہے، کون نہیں جانتا کہ اس دنیا میں خار اور پھول اکٹھے چل سکتے ہیں لیکن اس کے بعد کی بھی ایک دنیا ہے اور اس دنیا میں پھول الگ ہوں گے اور خار الگ۔وہاں دونوں کا فیصلہ بھی منفی اور مثبت سوچ کی بنیاد پر ہونا ہے اور بنیاد کو مضبوط کرنے سے ہی اچھے محل کی تعمیر کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔
قارئین کرام سوشل میڈیا نے پوری دنیا کو دیکھتے ہی دیکھتے اپنی گرفت میں لے لیا ہے اور یہ گرفت اتنی مضبوط ہے کہ راتوں رات رائی کا پہاڑ بن جاتا ہے، بات کا بتنگڑ تو بن جاتا ہے، بات بھی جنگل میں آگ کی طرح پھیلتی ہے اور ہر طرف آگ ہی آگ اور آگ نے تو ہر چیز کو خاک بنانا ہوتا ہے۔لہٰذا سوشل میڈیا اور منفی سوچ پر بھی بڑی توجہ دینے کی ضرورت ہے، ہر شخص اب پوری دنیا کو اپنی بات جب چاہے سنا سکتا ہے مکمل آزادی ہے۔ہر چیز کے کئی استعمال ہوتے ہیں اسی طرح آزادی کے بھی کئی استعمال ہیں، اس لئے مغرب نے بہت جلدی ناک کے شروع ہونے اور آزادی کی حد کا بہت جلدی ادراک کر لیا تھا۔ شتر بے مہار اور سوشل میڈیا۔اس لحاظ سے بھی لوگوں کو آگاہ کرنے کی ضرورت ہے کہ کمان سے نکلا ہوا تیر اور زبان سے نکلا ہوا لفظ واپس نہیں لائے جا سکتے،لہٰذا بولنے سے پہلے بات کو تولنا چاہئے اور تول تولنے والے ترازو کے پلڑے منفی اور مثبت سوچ کے ہونگے۔ گہرے سوچ بچار کی ضرورت ہے اور مثبت رویوں کو تخلیق کرنے کی ضرورت ہے تاکہ پوری دنیا میں منفی سوچ کا خاتمہ کر کے مثبت سوچ کو فروغ دیا جا سکے۔ یہی آج کی اہم ضرورت ہے۔