سرمئی پانیوں سے بھرے دریائے ہنزہ کی قربت اور پسو کونز کی نوکیلی بلندیوں کے پس منظر میں ایک چھو ٹا سا کمرہ

سرمئی پانیوں سے بھرے دریائے ہنزہ کی قربت اور پسو کونز کی نوکیلی بلندیوں کے پس ...
سرمئی پانیوں سے بھرے دریائے ہنزہ کی قربت اور پسو کونز کی نوکیلی بلندیوں کے پس منظر میں ایک چھو ٹا سا کمرہ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف : عمران الحق چوہان 
قسط :55
بتورا اِن:
 آخرڈیڑھ ایک کلو میٹر چلنے کے بعد دور سڑک کنارے ایک فقیر کی کٹیا جیسا چھو ٹا سا کمرا نظر آ یا۔ سرمئی پانیوں سے بھرے دریائے ہنزہ کی قربت اور پسو کونز کی نوکیلی بلندیوں کے پس منظر میں ایک چھو ٹا سا کمرا، یوں لگتا تھا جیسے کو ئی بچہ دریا کنارے ریت کا گھر بناتے بناتے ادھورا چھوڑ کر چلا گیا ہو۔ ہم تیز تیز چلنے لگے۔قریب پہنچے تو زمین سے ذرا اونچا پختہ کمرہ تھا جس پر ”بتو را اِن“ کا سال خوردہ بورڈ آویزاں تھا۔ کمرے کے باہر سیب کے دو تین پو دوں پر ہرے ہرے سیب تھے۔ساتھ ہی کیاری میں زرد سنہری پھولوں نے اپنی سبھا جمائی ہوئی تھی۔ 
دور سے چھو ٹا دکھائی دینے والا کمرہ اندر سے کافی بڑا تھا۔با لکل ہنزائیوں کے دل کی طرح۔ دروازے کے ساتھ لکڑی کا پرانا کاونٹر تھا جس پر غیر ملکی زبانوں میں چھپے سیا حتی کتا بچے اور رسالے بکھرے تھے جو شاید آتے جاتے سیا ح چھو ڑ گئے تھے۔ کا و¿نٹر کے پیچھے دیوار پر پرنس کریم آ غا خان کی تصویر کے گردٹریکنگ کے نقشے اورمشہور چوٹیوں کے مناظر آویزاں تھے۔ ہال کے درمیان کھا نے کی لمبی میز کے گرد کرسیاں سلیقے سے پڑی تھیں لیکن مینیجر قسم کی کوئی چیز وہاں نہیں تھی۔ دریا کی جانب دیوار میں ایک اور دروازہ تھا۔ میں نے اس میں جھا نکا۔ یہ باورچی خا نہ تھا لیکن اس میں بھی کوئی نہیں تھا۔ صرف گیس والا ٹھنڈا چولھا تھا اور چینی کے دھلے ہوئے برتن ایک میز پر رکھے تھے۔ 
”ہیلو!“ میں نے کا و¿ نٹر ہاتھ سے بجا کر آواز لگائی لیکن کسی کاجواب آ یا نہ کو ئی خود آ یا۔ 
ہم نے با ہر آ کر بیگز کندھوں سے اتار کر دیوار کے ساتھ رکھے۔ ساتھ ہی ایک اور کمرا تھامیں نے اس میں جھا نکا۔ یہ شاید مقامی ٹیلی فون ایکس چینج تھا۔ مگر بتورا اِن کی طرح مکمل خالی۔یہاں فون کے سگنلز نہیں آرہے تھے اس لیے میں نے ندیم کو بھیجا کہ جا کر باقی دوستوں کوبلا لائے اور خود بیگ سے ٹیک لگاکر تھڑے پر بیٹھ گیااور ندیم کو دور ہوتا دیکھنے لگا۔ پختہ کمرے سے پرے کچے کمروں کی ایک قطار تھی جن کے روشن دان سڑک کی طرف کھلتے تھے۔کتنی خاموشی تھی ! کتنی تنہائی تھی !میں نے صاف ہوا میں لمبے لمبے سانس لیے اور دوستوں کے آنے تک تھیلے سے نوٹ بک نکال کر سفر کے نوٹس لکھنے لگا۔دوست آئے تو کچھ ساتھی ہوٹل کے تھڑے پر پڑی لوہے کی کر سیوں پر براجمان ہوگئے اورکچھ تھڑے پر ٹا نگیں لٹکا کر بیٹھ گئے اور اجتماعی طور پر ہو ٹل کے مالک کے ظہور کا انتظار کر نے لگے۔
”یہ لوگ اس طرح دروازے کھلے چھو ڑ کر کیسے چلے جاتے ہیں؟“ چیمے نے سوال کیا۔
 ”یہاں ہما ری طرح چو ری کا ڈر نہیں ہو تا ناں۔“ ندیم نے جواب دیا۔ 
”اوئے چیمے تیرے سگنل آ رہے ہیں؟“ احمد علی نے اپنے فون کو دیکھتے ہو ئے پو چھا۔
”پتہ نہیں یار میری تو بیٹری ہی ڈیڈ ہو ئی پڑی ہے۔“ چیمے نے اتنی مایوسی سے کہا جیسے بیٹری نہیںاس کی زندگی ، ڈیڈ ہوئی پڑی ہو ۔
”بھائی جان! یہاں سگنل نہیں آ تے۔“ندیم نے ان کی پریشانی پر نا امیدی کی مہر لگاتے ہو ئے بتایا۔ 
”اوہ تیری۔۔۔ نوں، چوہان صا حب آپ نے پہلے بتا نا تو تھا کہ یہاں سگنل نہیں آتے۔“ چیمے نے شکوہ کیا۔
” بتایا تو تھا کہ وہاں ماڈرن لائف والی سہولتیں نہیں ہوتیں۔“ میں نے اسے یاد دلایا۔ 
”لو جی کر لو بات !میں تو کہتا ہوں اب بھی ٹائم ہے کہیں اور چلتے ہیں۔“ احمد علی نے تجویز دی۔ جس پر اعظم اور ندیم نے سازش بھرا قہقہہ لگا یا۔
”اب تم پھنس چکے ہو جوانو!“ اعظم نے مزہ لیتے ہو ئے ان کے زخموں پر نمک چھڑکا۔ ”کہا تھا نا چوہان صا حب کے ساتھ مت جاو¿ یہ بہت خراب کرتے ہیں۔“
عثمان بھی ایک کمپنی کی نئی سِم یہ سوچ کر لایا تھا کہ یہ چینی کمپنی ہے چین کی سرحد پر اس کے سگنل ضرور آ ئیں گے لیکن افسوس اس کی امیدوں پر اوس پڑ گئی تھی اور اب پاک چین دوستی اور میرے متعلق اس کے خیا لات بھی تیزی سے تبدیل ہو رہے تھے۔ وہ سب مجھ سے ناراض ہو چکے تھے۔ 
کافی دیر بعد ہو ٹل کے پیچھے خو بانی اور سیب کے درختوں میں سے ایک پستہ قد، دبلا پتلا بوڑھا نمو دار ہوا۔ وہ دِکھنے میں ساٹھ پینسٹھ سال کا لگتا تھا۔ چھو ٹی چھو ٹی چینی آ نکھوں پر موٹے شیشوں کی عینک، ڈھیلی سی بُش شرٹ اور پنٹ میں ملبوس۔ آ دھے سر پر الٹی کنگھی کیے ہوئے سفید بال اور اسی رنگ کی چھدری مو نچھیں۔ وہ ہلکاسا جھک کر چلتا تھا۔ اسے دیکھتے ہی ایک نرم دل اور محبتی آ دمی کا خیال میرے دل میں آ یا۔ گوتم بدھ کی طرح شانت یہ آدمی عزت اللہ بیگ تھا، بتورا اِن کا مالک۔
ریسپشن اور ڈائننگ ہال سے ذراپرے رہائشی کمرے تھے۔ اس نے ہمیں رہائشی کمرے دکھائے ۔ ایک قطار میں مٹی پتھروں سے بنے چار کمرے۔ تختوں اور شہ تیروں سے بنی نیچی چھتیں۔ ہر کمرے میں دو چھوٹے چھوٹے پلنگ اور ایک میز۔ ہر چیز عزت اللہ بیگ نے اپنے سائز کے مطابق بنوائی ہوئی تھی۔ اعظم اور ندیم کی چو ڑائی اور چیمے اور احمدکی لمبائی کے لیے ذرا مسئلہ تھاالبتہ باقی مسافر آرام سے ایڈ جسٹ ہو سکتے تھے۔ فر شوں پر شاید کبھی قالین بچھائے گئے تھے لیکن اب من تُو شدم ، تُو من شدی والا مقام تھا اور ہر دو میں فرق کرنا انسانی حواس سے باہر کام تھا۔ ہم نے دو کمرے لے لیے۔ کمرے کچھ زیادہ صاف نہیں تھے لیکن ہم نے خود ہی جھاڑ پونچھ کرلی ( جس کے نتیجے میں کمرے میں ادھر ادھر بکھرا ہوا مٹی کوڑا نظر آ نا کم ہو گیا)۔ (جاری ہے )
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم “ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں )۔