انتشار کی سیاست ترقی میں رکاوٹ

  انتشار کی سیاست ترقی میں رکاوٹ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

جب تک ملکی سیاست کا بڑا مقصد ذاتی معیشت کی بہتری کے لئے تگ و دو کرنا جاری رہے گا اس وقت تک عوام کی مشکلات پر توجہ دے کر کامیابی حاصل کرنا بہت مشکل ہو گا جبکہ سیاستدان حضرات کی غالب اکثریت اپنے اخباری بیانات میں ایسی کاوشوں کو خدمات اور عبادت کے مثبت القابات سے تعمیر کرتی رہتی ہے۔ اس بارے میں یہ بھی ذہن نشین رہے کہ ایسے تضاد پر مبنی بیان بازی اکثر غلط کار حضرات کی کارروائیوں کی نفی نہیں کرتی؟ جبکہ ستم ظریفی یہ ہے کہ ملکی مفاد کو کسی سیاسی ذمہ داری کی انجام دہی کے دوران اولین کی بجائے ثانوی اہمیت کا درجہ دے کر جاری رکھنے کا انداز تاحال جاری ہے۔ ذاتی مفاد پرستی کو مخفی رکھ کر اس کے لئے خلوص نیت سے اکثر و بیشتر اپنی توانائیاں صرف کرنا ہماری سیاست کاری کی سالہا سال سے بہت افسوسناک روش ہے۔ سادہ الفاظ میں سطور بالا میں یہ نکتہ عرض کرنے کی سعی کی گئی ہے کہ سیاست میں آ کر ذاتی کاروبار اور تجارت کو فروغ دینے کی بجائے عوام کی اکثریت کے مسائل کو کم کرنے پر توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے تاکہ منتخب نمائندوں کے غور و فکر اور باہمی مشاورت سے مختلف طبقہ فکر کی مشکلات اور پریشانیوں کو ختم کرنے کے آسان حل تلاش کر کے ان کا عملی زندگی میں نفاذ کیا جا سکے۔ لیکن اس مرحلہ پر بھی کسی مخصوص طبقہ فکر خاندان یا چند افراد کے مفاد کو کسی طور ترجیح نہ دی جائے،بلکہ ملکی، صوبائی اور اجتماعی نوعیت کے مفادات کے حصول کو فوقیت دینے سے ہرگز چشم پوشی اور پہلو تہی نہ کی جائے۔ 

سیاسی عہدوں سے اپنے دوست احباب اور عزیز و اقارب کو اہلیت اور میرٹ کے نافذ اصولوں اور شرائط کو نظر انداز کر کے مفاد دینے کی کوشش نہ کی جائے۔ اس بنا پر بہت لائق اور اچھی تعلیمی ڈگریوں کے حامل امیدواروں کو حتی المقدور ترجیح دینے پر توجہ دے کر مطلوبہ ملازمتوں پر تعینات کیا جائے کیونکہ اقربا پروری اور رشوت خوری کے ذریعے بھرتی کئے گئے افراد کی کارکردگی معیاری نہ ہونے سے متعلق اداروں کے لئے سود مند ہونے کی بجائے سراسر بے مقصد اور غیر ضروری بوجھ ثابت ہوتی ہے۔ سرکاری اداروں کے اخراجات میں کمی کے لئے متعلقہ سینئر افسر مثلاً کمشنر، ڈپٹی کمشنر یا دیگر محکموں کے سینئر افسروں کو ایسی کارکردگی کا ماہانہ یا سہ ماہی جائزہ لے کر اسراف میں کمی کر کے اشد ضروریات کی فراہمی پر خرچ کیا جائے۔

سیاسی نمائندوں سے اہل وطن اور ان کے ووٹرز یہ توقع رکھتے ہیں کہ عوام کو مصنوعی مہنگائی اور بجلی و گیس کے بھاری بلوں سے جلد نجات دلانے کے اقدامات کئے جائیں۔ حریف اور مخالف نمائندوں کو بھی اس قومی ذمہ داری کی مثبت کارکردگی نبھانے پر ممکنہ توجہ دینی چاہئے۔اگر بعض نمائندے محض اخباری بیانات کے ذریعے حریف لوگوں پر تسلسل سے بے بنیاد الزام تراشی کر کے اپنی کارکردگی اچھی ثابت کرنا چاہتے ہیں تو ان کا ایسا وتیرہ ہرگز متعلقہ ووٹروں کے لئے مثبت قرار نہیں دیا جا سکتا۔ کیونکہ ووٹروں کی مشکلات میں کسی اہم ضرورت اور سہولت کا حصول کسی رہنما کی مثبت کارکردگی کا ایک لازمی تقاضا ہے۔ مثبت نوعیت کی کارکردگی کے بغیر کوئی نمائندہ بلا شبہ اپنی ذمہ داری نبھانے سے کوتاہی اور غفلت کا مرتکب ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ لہٰذا ایسی صورت حال میں اسے اپنی منتخب حیثیت سے دستبردار ہو جانا چاہئے۔ کیونکہ ملک میں کوئی ایسا حلقہ نہیں جہاں کے عوام مختلف نوعیت کے مسائل سے دو چار نہ ہوں۔ یاد رہے کہ انتخابی عمل کے انعقاد میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے نمائندے منتخب کرانے کے لئے الیکشن کمیشن کو قومی خزانے سے اربوں روپے خرچ کرنا پڑتے ہیں۔ 

کارکردگی کے ذریعے عوام اور نوجوان قیادت کی بہتر اقدار و روایات کی شاندار اور جاندار مثالیں قائم کرنا، موجودہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اگر ہم لوگ اپنے ملک کے عوام کے مسائل حل نہیں کر سکتے تو ایسے نمائندوں کو اس ذمہ داری سے جلد الگ ہو جانا چاہئے کیونکہ قوم کے بھاری اخراجات ان کے حق نمائندگی پر خرچ کئے جاتے ہیں۔ سیاست میں لڑائی جھگڑوں، بلا جواز احتجاجی مظاہروں اور بدتمیزی کے آئے روز کے رجحان سے عام لوگ بہت عاجز آ گئے ہیں۔ اس کی بناء پر ملک کے مختلف علاقوں میں بد امنی اور سیاسی انتشار کے حالات سے کاروباری سرگرمیاں اور ٹریفک کی روانی، قابل ذکر حد تک متاثر ہوتی ہے۔ اس طرح عام لوگوں، اور طلبہ و طالبات کے لئے اپنے تعلیمی اداروں یا واپس اپنے گھروں کی جانب جانا مشکل ہو جاتا ہے جبکہ سیاسی نمائندوں سے یہ توقع رکھی جاتی ہے کہ وہ اپنی سیاسی مہم کے دوران عوامی اجتماعات میں ووٹروں سے کئے گئے بلند بانگ وعدوں اور دعوؤں پر جلد عملدرآمد کے لئے اپنی ذمہ داریاں پوری کریں گے۔ انہیں ایسی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کی تگ و دو کرنی چاہئے، بیشک بعض ناموافق حالات یا ملک کے محدود مالی وسائل کی وجہ سے ان کی کاوشیں متوقع انداز سے کامیاب نہ بھی ہو سکیں لیکن ان کی مخلصانہ کارکردگی قابل ستائش کہی جا سکتی ہے۔ اکثر سیاسی قائدین اور محب وطن حضرات و خواتین اسے حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ وطن عزیز کی انسانی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے لیکن ہمارے مالی وسائل، ملکی ضروریات پوری کرنے سے کافی کم ہیں اس لئے ہر ذی شعور شخص کو ملکی معیشت کو بہتر کرنے کا کردار ادا کرنا چاہئے۔

مزید :

رائے -کالم -