پاک بھارت کشیدگی میں اضافہ، آگے کیا ہوسکتا ہے؟ سی این این کی رپورٹ آگئی

پاک بھارت کشیدگی میں اضافہ، آگے کیا ہوسکتا ہے؟ سی این این کی رپورٹ آگئی
پاک بھارت کشیدگی میں اضافہ، آگے کیا ہوسکتا ہے؟ سی این این کی رپورٹ آگئی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اسلام آباد/نئی دہلی(ڈیلی پاکستان آن لائن) پہلگام واقعے کے بعد پاکستان اور بھارت میں ایک بار پھر کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ امریکی ٹی وی سی این این کے مطابق تمام نگاہیں اب اس بات پر مرکوز ہیں کہ نئی دہلی اور اسلام آباد کس طرح ردعمل دیتے ہیں، جب کہ تجزیہ کاروں کو خدشہ ہے کہ صورتحال کسی عسکری تصادم کی جانب بڑھ سکتی ہے۔

اسٹینفورڈ یونیورسٹی کے سینٹر فار انٹرنیشنل سیکیورٹی اینڈ کوآپریشن سے وابستہ ریسرچ سکالر ارزان ترپورے نے کہا ’’مودی پر ایک بہت سخت، بلکہ ناقابلِ مزاحمت سیاسی دباؤ ہوگا کہ وہ طاقت کے ساتھ بدلہ لیں۔  ہم نہیں جانتے کہ وہ بدلہ کس شکل میں ہوگا، اور اس پر قیاس آرائیاں کرنا اس وقت کچھ خاص معنی نہیں رکھتا، لیکن میرا خیال ہے کہ 2019 کے بالاکوٹ بحران سے ہمیں اندازہ ہوسکتا ہے کہ بھارت کس قسم کا ردعمل دے سکتا ہے‘‘۔

یہ حوالہ اس وقت کے بھارتی ردعمل کی طرف ہے جب  مقبوضہ کشمیر میں پلوامہ حملے میں بھارت کے  40 سے زیادہ نیم فوجی اہلکار مارے گئے تھے۔ اس حملے کے بعد نئی دہلی نے  1971 کی جنگ کے بعد پہلی بار پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سرجیکل سٹرائیک کا دعویٰ کیا۔ لیکن پاکستان نے اگلے ہی روز اس کا بھرپور جواب دیا اور بھارت کے  طیارے کو گراکر اس کے پائلٹ کو گرفتار کرلیا تھا۔

ترپورے نے کہا ’’اصل سوال یہ ہوگا کہ کیا بھارت دہشت گرد گروہوں پر حقیقی، ٹھوس دباؤ ڈالنے کی کوشش کرے گا، مثلاً ان کی قیادت یا ہیڈکوارٹرز کو نشانہ بنا کر؟ یا پھر بھارت اس حد سے بھی آگے جائے گا اور پاکستانی فوج کو نشانہ بنائے گا؟بھارت کی عسکری صلاحیتیں 2019 کے بعد سے بہتر ہوئی ہیں، اس لیے وہ بڑے اہداف کے خلاف کارروائی کے لیے خود کو زیادہ پر اعتماد محسوس کر سکتا ہے‘‘۔

تاہم ٹفٹس یونیورسٹی سے وابستہ پروفیسر ہمایوں نے کہا کہ اگر بھارت کی حکومت نے عسکری کارروائی کا راستہ اختیار کیا تو ’’ہر وجہ موجود ہے کہ پاکستان بھی جواب میں بھرپور ردعمل دے گا ۔اگر اس موقع پر کسی سٹریٹیجک ضبط یا کسی تیسرے فریق کی مداخلت نہ ہوئی، تو آنے والے دنوں میں غیرمتوقع تصادم کے امکانات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا‘‘۔


خیال رہے کہ منگل کے روز مقبوضہ جموں و کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں ایک حملے کے نتیجے میں 26 بھارتی شہری مارے گئے تھے۔ بھارتی حکومت نے اپنی سابقہ روش برقرار رکھتے ہوئے اس کا الزام پاکستان پر دھرا اور  پاکستان کے خلاف متعدد اقدامات کا اعلان کیا ۔

بھارت نے پاکستان کے ساتھ دریاؤں کے پانی کی تقسیم سے متعلق تاریخی "سندھ طاس معاہدے" کو معطل کر دیا ۔ واہگہ اٹاری بارڈر کو بند کر دیا۔ پاکستانی شہریوں کے لیے تمام ویزا سروسز معطل کر دی گئیں۔دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن میں تعینات فوجی مشیروں کو ’ناپسندیدہ شخصیت‘ (persona non grata) قرار دے کر ایک ہفتے کے اندر ملک چھوڑنے کا حکم دے دیا۔ یکم مئی سے بھارت میں پاکستانی سفارتکاروں کی تعداد 55 سے کم کر کے 30 کر نے کا اعلان کردیا۔ 

اس کے جواب میں پاکستان نے بھی بھارت کے خلاف تقریباً ویسے ہی جوابی اقدامات کا اعلان کیا۔

بھارت کی طرف سے پانی کے معاہدے کی معطلی کو مسترد کرتے ہوئے پاکستان نے کہا ہے کہ اگر بھارت نے پانی روکنے یا موڑنے کی کوشش کی تو اسے "جنگی اقدام" تصور کیا جائے گا۔  پاکستان بھارت کے ساتھ شملہ معاہدے سمیت  اس وقت تک دوطرفہ معاہدے معطل کرنے کا حق رکھتا ہےجب تک بھارت پاکستان میں دہشت گردی سے باز نہیں آجاتا اور کشمیر سے متعلق اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدر آمد نہیں کرتا۔ بھارتی شہریوں کو خصوصی سکیم کے تحت جاری کردہ تمام ویزے فوری طور پر معطل کر دیے گئے تاہم سکھوں کی مذہبی یاترا کو اس سے استثنیٰ قرار دیا گیا ہے ۔  اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمیشن میں تعینات سفارتکاروں کی تعداد 55 سے کم کر کے 30 کر دی جائے گی۔ واہگہ بارڈر کو فوری طور پر بند کر دیا گیا ہے۔ پاکستانی فضائی حدود بھارتی ملکیت یا بھارتی آپریٹڈ تمام پروازوں کے لیے بند کر دی گئی ہے۔بھارت کے ساتھ تمام تجارتی سرگرمیاں معطل کر دی گئی ہیں۔