پیسہ تو بولتا ہے،اگر نتاشا یہ جرم برطانیہ میں کرتی؟

  پیسہ تو بولتا ہے،اگر نتاشا یہ جرم برطانیہ میں کرتی؟
  پیسہ تو بولتا ہے،اگر نتاشا یہ جرم برطانیہ میں کرتی؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

  

میں ملک سے باہر پہلی بار1988ء میں گیا اور قریباً ساڑھے چار ماہ تک برطانیہ اور امریکہ میں دوستوں اور عزیز و اقارب کے ساتھ وقت گذارا،انہی دِنوں ایک دوست مشتاق لاشاری نے رات کے کھانے پر بلایا اور تجویز کیا کہ وہ دوسرے دوستوں کو بھی بُلا لیتے ہیں تاکہ ایک ہی وقت میں زیادہ دوستوں سے ملاقات ہو جائے،میں ان دِنوں اپنے بھائی ہمراز احسن کے پاس ٹھہرا ہوا تھا،چنانچہ وہی مجھے اپنی گاڑی پر لیکر مطلوبہ دعوت پر پہنچے جو دیگر دوست جمع ہوئے ان میں ہمارے دوست ڈپٹی سپیکر (مرحوم) شمیم بھی تھے،وہ بھی دیگر کئی احباب کی طرف ضیائی مارشل لاء کے ڈسے ہوئے تھے اور لندن میں ”پناہ گزین“ تھے۔ یہ ایک اچھی محفل تھی،جس میں دوستوں نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور خوب گپ شپ رہی،کھانا گھر کا تھا اور ذائقہ اپنا پاکستانی، خوب سیر ہو کر کھایا،دوسرے سب دوستوں نے مشروبات سے بھی دِل بہلایا،میں مجبور کرنے پر بھی سادہ پانی تک محدود تھا،محفل برخاست ہوئی تو مسئلہ واپسی کا تھا۔ ہمراز احسن  نے یہ کہہ کر کار چلانے سے انکار کر دیا کہ میں رات کو گاڑی نہیں چلاؤں گا۔اب مسئلہ یہ تھا کہ محترم شمیم صاحب نے اپنے گھر جانا تھا اور وہ اس حالت میں نہیں تھے کہ اکیلے جاتے،مشورہ کے بعد قرعہ فال میرے نام نکلا کہ میں ان کو ٹرین سے ان کی رہائش پر لے جاؤں،مرتا کیا نہ کرتا، میں نے یہ ذمہ داری قبول کی اور انہوں نے مجھے اچھی طرح بتا دیا کہ کس سٹیشن سے چلنا اور کس پر اترنا ہے، میرے پاس سیزن کارڈ تھا جو پہلے ہی سے خریدا ہوا تھا۔ شمیم صاحب کے پاس بھی تھا چنانچہ وہ میرے کندھے کے سہارے لڑکھڑاتے باتیں کرتے چلے جا رہے تھے۔ بخیریت ان کی رہائش پر پہنچے جو برطانوی حکومت کی طرف سے دیئے گئے وظیفے والے کرائے کی تھی۔ رات وہاں گذاری، صبح کو ناشتہ کیا اور اجازت لے کر ہمراز احسن کے گھر آ گیا۔جب میں نے رات کے حوالے سے پوچھا کہ وہ مجھے لے کر گئے اور واپس نہیں لائے،تو انہوں نے بتایا، گو وہ نشے میں نہیں تھے تاہم ام الخبائث چکھی تھی،اِس لئے گریز کیا کہ لندن پولیس والے شبہ ہونے پر گاڑی روک کر ڈرائیور کو اتار کر چند گز تک چلنے کی دعوت دیتے ہیں اور قدموں کی لڑکھڑاہٹ سے اندازہ لگاتے ہیں کہ جرم کی نوعیت کتنی سنگین ہے،ان کے تجربے کے مطابق ڈرائیور معمولی نشے میں بھی ہو تو چالان کر لیا جاتا اور لائسنس تک ضبط ہو جاتا ہے۔

میں نے یہ قصہ1988ء کے دور کا سنایا ہے، تب کے مقابلے میں اب دنیا بہت ترقی کر چکی،اب تو ایسے آلات آ چکے جو سانس کی بُو سے بتا دیتے ہیں کہ موصوف کس حد تک ڈوبے ہوئے ہیں اور وہاں معافی کا سوال ہی نہیں،لائسنس کی معطلی اور ضبطی تو عام ہے،تاہم جرمانہ کی سزا بھی دی جاتی ہے،جرم سنگین ہو تو عدالت میں پیش کر کے سزا بھی دلائی جاتی ہے،اِس ذکر کا مقصد یہ ہے کہ اشرافیہ طبقے سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون نتاشا نے کراچی کار ساز روڈ پر اپنی لینڈ کروزر سے ایک محنت کش اور اُس کی نونہار بیٹی کو ”قتل“ کر دیا ہے اب ایک اور ویڈیو سے مزید انکشاف ہوا کہ موصوفہ نے اِس سے قبل ایک کار اور اس کے بعد موٹر سائیکل کو ٹکر ماری اور پھر باپ بیٹی کو کچل کر ”قتل“ کر دیا،اِس حادثے کے حوالے سے بھانت بھانت کی بولیاں سننے میں آ رہی ہیں۔میرے لئے تعجب کی بات یہ ہے کہ پولیس کے مطابق موصوفہ کے پاس برطانوی ڈرائیونگ لائسنس ہے اور اس کے طبقے کی روشنی میں گھپلا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے،کبھی نفسیاتی مریضہ بتایا گیا، کبھی نشے کا شبہ ظاہر کیا گیا اور اب ڈاکٹر حضرات نے بھی اسے دماغی خرابی(بوقت ہسپتال آمد) قرار دے دیا ہے،اس مزدور اور اس کی طالبہ بیٹی کا ذکر صرف میڈیا پر رہ گیا،انسانی حقوق کی تنظیمیں اور این جی اوز سوئی ہوئی ہیں کہ ان سب کا اپنا تعلق بھی اسی طبقے سے ہوتا ہے،بچی کے والد کسی فیکٹری وغیرہ میں بھی ملازم نہیں کہ ٹریڈ یونین ان کا سہارا بنے۔ وہ از خود پاپڑ بیج کر روزی کماتے اور بچی کو پڑھا رہے تھے، جب حادثہ ہوا تو وہ بچی کو کالج ہی سے لے کر آ رہے تھے کہ موت نے آ لیا اس کے لئے فرشتہ ئ اجل نہیں ”حور“ کو بھیج دیا گیا۔اب ہمارے ترقی پذیر ممالک خصوصاً پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں اشرافیہ سب کچھ ہے۔ شاید انہی حالات کی وجہ سے لندن میں مقیم ہمارے دوست نے سوشل میڈیا پر نتاشا کی تحسین کی کہ اس نے باپ بیٹی کی موت کے عوض دیت دینے کی پیشکش کی ہے۔ ہمارے اِس دوست کا یہ مشورہ شاید اس لئے ہے کہ اس طرح غریب کا بھلا ہو جائے اور کمائی کر کے پیٹ پالنے والے کے چلے جانے کے بعد پسماندگان کا گذارا ہو سکے۔ثقلین امام ہمارے ہی شہر کے ہیں اور اب دہری شہریت کے حامل لندن میں مقیم ہیں،میرا ان سے اور ان سب سرکاری اہلکاروں سے یہ سوال ہے،جو خاتون کے برٹش ڈرائیونگ لائسنس سے بھی مرعوب دکھائی دیئے اور یہ نکتہ نکال لیا کہ کیا خاتون اس لائسنس پر کار چلا سکتی ہے، لیکن یہ سب اس بات کو بھول گئے کہ یہ خاتون برطانیہ میں ”مدہوشی“ کے عالم میں ڈرائیو کر سکتی اور اگر ایسا حادثہ وہاں ہوتا تو پھر برطانوی پولیس اس کے ساتھ کیا سلوک کرتی،اب تو جدید دور ہے سب ٹیسٹ  حادثہ کے مقام اور پولیس سٹیشن ہی میں ہو جانا تھے، سزا اور جرمانہ ہوتا تو زندگی بھر کے لئے ڈرائیونگ لائسنس بھی معطل ہو جاتا، لیکن ہم ہیں کہ روز روز نئی حکایات سامنے لا رہے ہیں یہ تو میڈیا کے باعث اب تک حادثہ زندہ ہے اور گورنر سندھ کو بھی بولنا پڑا ہے،میں نے ثقلین امام کی کیفیت اور ان کی طرف سے دیت کی تجویز کو ملک کے معروضی حالات میں بہتر جانا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ جو حکمران اور حکومتیں ارشد ندیم کو گولڈ میڈل لانے پر کروڑوں کے انعامات دے سکتے ہیں،ان کے پاس شہداء کے لئے پیکیج بھی ہیں تو کیا یہ پاپڑ والے مرحوم کے خاندان والے امداد کے مستحق نہیں ہیں۔سرکار خود کیوں نہیں اس مصیبت زدہ خاندان کی مدد کرتی اور کیس کی مضبوط پیروی کرتی تاکہ مستقبل میں اشرافیہ کے کسی فرد کو اپنے ہوش بے قابو نہ کرنا پڑیں۔ہماری ریت بھی عجیب ہے خاتون کی نفسیاتی توضیح کی جا رہی ہے اور اللہ کے بندو! یہ تو بتاؤ، کسی ذہنی مریض کو برطانوی ڈرائیونگ لائسنس مل سکتا ہے۔یہ یقینا ڈیفنس کونسل کی درفطنی ہو گی کہ ملزمہ کو ذہنی مریض ثابت کر کے جان چھڑا لی جائے،حالانکہ یہ تو عام جرم سے،زیادہ سنگین جرم بن گیا ہے۔

وزیراعظم،گورنر سندھ اور وزیراعلیٰ سندھ کو اپنے اپنے طور پر متاثرہ خاندان کی مدد کرنا ہو گی اور پھر اس کیس کی پیروی ٹھوس بنیادوں پر کی جائے، پولیس کی ہیرا پھیریوں کو بھی پراسیکیوشن کے ذریعے روکا جائے ورنہ پیسہ تو بولتا ہے!

مزید :

رائے -کالم -