حکومت اور اپوزیشن، مفاہمت سے مشکلات روکیں
ملک میں وقت گزرنے کے ساتھ ترقی کی بجائے زوال کے تسلسل کو روکنے یا کم کرنے کے لئے با اختیار برسر اقتدار اور اجتماعی نوعیت کے فیصلے کرنے والے سیاست دانوں، افسروں اور اپنے شعبوں کے موجودہ ماہرین کے لئے ملکی مفاد کی بہتری کے لئے خلوص نیت سے اپنا پیشہ ورانہ اور مشاورت کا کردار ادا کرنا ضروری ہے۔ مذکورہ بالا حضرات و خواتین چونکہ بہت اہم ذمہ داری نبھانے کے امور پر متعین ہیں اس لئے ان سے اپنے فرائض کی ادائیگی کے لئے غلط، ناجائزا ور غیر قانونی حرکات کی توقع نہیں، عوام کی بھلائی کو ترجیح دے کر اپنی کارکردگی اسی مثبت اور سود مند فکر و عمل پر مرکوز رکھنے کی کاوشیں کرنا ہوں گی۔ زیادہ عرصہ برسر اقتدار رہنے کی خواہش صرف اسی صورت قابل قبول ہو سکتی ہے جب تک متعلقہ عہدہ دار اور نامزد حضرات اپنی کارکردگی ملکی آئین و قانون کے تحت سر انجام دینے کی سعی کرتے رہیں۔ انتخابی امیدواروں کو کبھی ایسی مہم چلانے کی اجازت اور کھلی چھٹی نہیں دی جانی چاہئے جس کے دوران وہ الیکشن کمیشن کے جاری کردہ ضابطہ اخلاق پر من و عن عمل کرنے سے اجتناب کی روش اپنانے کو ترجیح دے اور متعلقہ شرائط اور ہدایات کو بلا روک ٹوک پامال کرنے کی ڈگر پر چل کر اپنی من مانی کے تحت حریف امیدواروں کی پگڑیاں اچھالنے اور ان پر بلا جواز الزام تراشی کر کے انہیں بدنام کرنے اور عوام کی نظروں میں خراب شہرت کے حامل افراد قرار دینے کی سعی کرتے رہیں۔ عام لوگوں سے بھی یہی گزارش ہے کہ آئندہ انتخابات میں حتی الوسع، بہتر عمل و کردار رکھنے والے امیدواروں کو زیادہ تعداد میں ووٹ دے کر کامیاب کرانے کی کوششیں کریں کیونکہ اس طرح ہی کامیابی کے بعد منتخب ہونے سے ان کی کارکردگی اپنے حلقوں کے لوگوں کے مطالبات کے مطابق بہتر ہونے سے ان کی مشکلات میں کمی واقع ہو سکتی ہے۔
گزشتہ 8 فروری کے انتخابات کے بعد سے قومی اسمبلی اور پنجاب میں نسبتاً کم نشستیں حاصل کرنے والی جماعت تحریک انصاف و بعض دیگر جماعتیں ایک تسلسل سے عوامی مینڈیٹ چوری کرنے کا الزام، مسلم لیگ (ن) پر عائد کر رہی ہیں، لیکن پی ٹی آئی خیبرپختونخوا میں کسی انتخابی دھاندلی کے بارے میں کوئی عذر و اعتراض نہیں کر رہی۔ حالانکہ الیکشن کمیشن تو پورے ملک میں ایک ہی ہے، جو قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی روز منعقد کراتا ہے۔ اس لئے عوام کی اکثریت ان کے اس اعتراض سے اتفاق نہیں کرتی کہ وفاق اور پنجاب کی سطحوں پر کسی منظم انداز سے دھونس اور دھاندلی کا ارتکاب کر کے عوام کے ووٹوں کی اصل گنتی کے بجائے فرضی اور من گھڑت اعداد و شمار کے ذریعے مسلم لیگ (ن) کو کامیاب کرایا گیا تھا۔ ان انتخابات کے انعقاد کو چھ ماہ سے زائد عرصہ ہو گیا ہے۔ ان نتائج کو چیلنج کرنے کے لئے ہر صوبہ میں خصوصی ٹربیونلر قائم کی گئی ہیں۔ جن میں اب تک کئی فیصلے سامنے آ چکے ہیں۔ ان کے بعد ناکام امیدوار ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ میں اپنی عذر داریاں دائر کر کے وہاں سے فیصلے حاصل کر رہے ہیں۔ ہمیں ان عدالتوں پر اعتماد کرنا چاہئے اور جج صاحبان کو بھی متعلقہ آئین و قانون کے تحت ہی منتخب نمائندگی کے لئے انہی امیدواروں کے لئے کامیابی کے اعلانات کئے جانے کی گزارش ہے جو انتخابی کمیشن کے ریکارڈ کے مطابق اپنے حلقوں میں زیادہ ووٹ حاصل کرتے ہیں۔
جج صاحبان بھی اسی آئینی تقاضے کے تحت اپنے فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں۔ انصاف کا تقاضا ہے فیصلوں پر تنقید پر توجہ دے کر جج صاحبان کی جانب سے مثبت دلائل کو پیش نظر رکھتے ہوئے بلا کسی سفارش اور رعایت اپنی بہترین کارکردگی سے فیصلے صادر کئے جانے کو ترجیح امر جاری رکھا جائے۔
انتخابی عمل کو مروجہ خرابیوں اور منفی روایات سے نجات دلانے کے لئے انتخابی امیدواروں کو غلط کارروائیوں سے صاف کرنے کے مثبت طریقے اپنانے پر ضروری توجہ دینا ہو گی۔ یہ امر ذہن نشین رہے کہ انتخابی نتائج کی غلطیوں کو حتی الوسع جلد ختم یا کم کرنے کی کوشش انتخابی کمیشن اور متعلقہ امیدواروں کو بر وقت چوکس اور مستعد رہ کر سابقہ غلط حرکات کا سد بات پوری تندہی اور جرات و ہمت سے کیا جانا چاہئے۔ اس ضمن میں بد دیانت اور غلط کار عناصر پر کڑی نظریں رکھ کر ان کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حوالے کر کے سزائیں دلائی جائیں۔
ہمارے ملک میں یہ رجحان بد قسمتی سے تا حال جاری ہے حالانکہ بھارت اور دیگر ممالک میں ایسی شکایات نسبتاً بہت کم شرح اور شدت سے دیکھنے او ر پڑھنے میں آتی ہیں۔ انتخابات پر تنقید کرنے والے سیاست دان حضرات و خواتین کو حقائق بالا کو مد نظر رکھتے ہوئے کسی نئے محاذ یا اتحاد کی تشکیل پر کوئی غور کرنے یا توجہ دینے کی بجائے ملکی مسائل کے حل کی خاطر اپنی مثبت تجاویز دے کر عوام کی مشکلات کم کرنے کی کوششیں بروئے کار لانے کو ترجیح دینی چاہئے کیونکہ باہمی سیاسی کشیدگی اور تلخ کلامی سے مسائل حل ہونے کی بجائے مزید اُلجھ کر باہمی محاذ آرائی کے کربناک حالات پیدا کر سکتے ہیں۔ نیز احتجاجی اور مظاہروں کی سیاست سے حتی الامکان اجتناب کیا جائے۔
یاد رہے کہ ملکی ترقی عوام کے لئے مہنگائی، بیروزگاری اور بجلی و گیس کے بل کم کرنے کے مطالبات پر توجہ دے کر کم کرنے کے تقاضا پر عمل کیا جائے۔ سیاسی مذاکرات کے لئے دیگر جماعتوں کے نمائندوں سے عزت و احترام، خندہ پیشانی، خوش اخلاقی اور آئین و قانون کے تحت ہمہ وقت مفاہمت اور مصالحت کے جذبات اور خوشگوار ماحول کے ساتھ کر کے ملکی معیشت کو بہتر کرنے کی کاوشیں بروئے کار لائی جائیں۔