’’تیرے عشق نچایا کر تھیا تھیا‘‘ یہ سدا بہار کلام تو آپ نے سنا ہوگا ،یہ منظر عام پر کب آیااور اسکی وجہ کیا بنی تھی جان کر آپ کو عاشق اور معشوق کے تعلق کی نزاکت سمجھ آجائے گی

’’تیرے عشق نچایا کر تھیا تھیا‘‘ یہ سدا بہار کلام تو آپ نے سنا ہوگا ،یہ منظر ...
’’تیرے عشق نچایا کر تھیا تھیا‘‘ یہ سدا بہار کلام تو آپ نے سنا ہوگا ،یہ منظر عام پر کب آیااور اسکی وجہ کیا بنی تھی جان کر آپ کو عاشق اور معشوق کے تعلق کی نزاکت سمجھ آجائے گی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

’’تیرے عشق نچایا کر تھیا تھیا‘‘ حضرت بلھے شاہ ؒ کا یہ کلام زبان زدعام و خاص ہے۔اس کے نزول کی وجہ ایک ایسا واقعہ بنا تھا جس نے اسکو بعدمیں عشق مجازی اور اپنے شیخ کے عشق میں فنا بخش دیا۔آپ ؒ نے یہ کلام اپنے ناراض مرشدکو راضی کرنے کے واسطے ناچ کر گایا تھا ۔حضرت بابا بلھے شاہؒ اپنے مرشد کے عشق میں فنا تھے لیکن ایک لغزش نے ان کے درمیان ناراضگی پیدا کردی تھی۔

لائیو ٹی وی پروگرامز، اپنی پسند کے ٹی وی چینل کی نشریات ابھی لائیو دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
روایات میں آتا ہے کہ ایک بار حضرت بابابلھے شاہؒ اپنے استاد محترم غلام مرتضیٰ کی صاحبزادی کی شادی میں کھانے کے انتظام میں مصروف تھے جب حضرت شاہ عنایت قادریؒ کے داماد، بھتیجے اور مرید خاص مولوی ظہوران سے ملنے کے لیے آئے۔اتفاق یہ ہوا کہ مہمانوں کی خدمت میں مصروف مرشد کے داماد کو وقت نہ دے سکے اور پانے ایک خادم کو انکی خدمت پر مامور کردیا ۔ سوئے اتفاق کہ حضرت بابابلھے شاہؒ بھول گئے اور مولوی ظہور محمدسے ملاقات نہ کرسکے ۔وہ صبح سویرے غصہ کے عالم میں واپس لاہور پہنچے اورحضرت شاہ عنایت قادریؒ کی بارگاہ میں پہنچ کر شکایت کردی۔حضرت شاہ عنایت قادریؒ نے سنا تو ناراض ہوئے اوراپنے چہیتے مرید حضرت بابابلھے شاہؒ کی ولایت سلب کرلی۔ادھر حضرت بابابلھے شاہؒ کو اسکا فوری احساس ہوا اور وہ واپس لاہور دوڑے لیکن مرشد کریم سے ملاقات نہ ہوسکی اور وہ ملامت و غم و اندوہ سے ڈھ گئے،کوئی سبیل نہ ملی کی مرشد کو کیسے منایا جائے۔وقت گزرتا گیا اور پھر ایک روز وہ ان قوالوں کے پاس گئے جو حضرت شاہ عنایت قادریؒ کے سامنے قوالی پیش کرتے تھے حضرت بابابلھے شاہؒ نے انھیں سارا واقعہ سنایا اور افشائے راز سے منع کیا۔ روایات کے یہ جمعہ کا دن تھا حضرت بابابلھے شاہؒ نے غسل کیا، نماز تہجد ادا کی، اللہ کے حضور منظوری کے لیے گڑگڑا کے دعا کی۔ صبح کی نماز سے فارغ ہو کر اپنا سابقہ لباس اتار کر مغنیہ کا لباس پہنا۔ پاؤں میں گھنگرو باندھے، چہرے پر نقاب ڈالا اور مرشد کریم کی خدمت میں حاضر ہو گئے، جیسے ہی محفل سماع منعقدہوئی، آپؒ نے ایسا پُرسوز کلام سنایا کہ تمام حاضرین محفل وجد میں آگئے، خود گانے والے اور سازندے حیران رہ گئے۔ تب آپؒ نے یہ کافی گانا شرو ع کر دی۔
تیرے عشق نچایا کر تھیا تھیا
جب آپ کافی گا چکے تو حضرت شاہ عنایت قادریؒ فرمایا ’’تو بلھا ہے؟‘‘حضرت بابابلھے شاہؒ کی آنکھوں سے آنسووں کی لڑیاں گرنے لگیں ، عرض کیا’’ حضور بلھا نہیں بھولا ہوں‘‘ مرشد اٹھے اور انھیں گلے سے لگا لیا۔