ڈاکٹر محمد آصف اعوان علمی دنیا کے بحر موّ اج ہیں۔ موجوں میں تلاطم آ جائے تو ان کی تحریر کتابی شکل اختیار کر لیتی ہے جس سے تشنگان علم سیرابی حاصل کرتے ہیں۔ا س وقت تک ان کی درجن بھر کتابیں شائع ہو چکی ہیں ۔ ’’مستقبل کا نظریہ‘‘ ان کی تازہ کاوش ہے، جس کو بزم اقبال لاہور نے اہتمام سے چھاپا ہے۔ یہ مستقل کتاب نہیں بلکہ ایک انگریزی میں لکھی کتاب کا اُردو میں ترجمہ ہے، جو ڈاکٹر محمد رفیع الدین کی قلمی کاوش ہے۔ اس کا ترجمہ ڈاکٹر اعوان صاحب کے قلم کا شاہکار ہے۔ ڈاکٹر رفیع الدین کی اصل کتاب Ideology of the Future ہے جو اُنہوں نے انگریزی زبان میں لکھی۔ ڈاکٹر آصف اعوان صاحب نے اس انگریزی کو اُردو زبان کا قالب دیا ہے۔اور اس طرح مجھ جیسے انگریزی کم اُردو زیادہ والوں کی مشکل آسان کی ہے۔
ڈاکٹر رفیع الدین فلسفہ کے آدمی تھے۔انہوں نے 1901ء میں اس دنیا ئے آب و گل میں قدم رکھا اور 1969ء تک تقریباً پون صدی کے نشیب و فراز دیکھے۔ یہ زمانہ وہ تھا جب برصغیر کے باسیوں پر انگریزی زبان کی گرفت بہت مضبوط تھی اور عام تاثر یہی تھاکہ معروضی حالات کے تحت آگے بڑھنے اور ترقی کی معراج کو چھونے کے لئے انگریزی زبان کا سہارا لینا بہت ضروری ہے۔شاید اسی معاشرتی جبر میں ڈاکٹر رفیع الدین کو انگریزی زبان کا سہارا لینا پڑا۔
ڈاکٹر رفیع الدین نے اپنی کتاب Ideology of the Future کو بارہ عنوانات پر تقسیم کیا ہے۔ جو اس طرح ہیں:
۱۔ شعور بحیثیت حتمی حقیقت
۲۔ تخلیق اور ارتقاء
۳۔ جبلت کا دباؤ اور ذات کی آرزو
۴۔ خود شعوری کی نشوونما
۵۔ اخلاقیات
۶۔ انسانی فطرت کے معاصرنظریات حصہ اوّل
۷۔انسانی فطرت کے معاصر نظریات حصہ دوم
۸۔ مزاحمت اور عمل
۹۔ سیاست، تاریخ اور جنگ
۰۱۔ مارکسیت
۱۱۔ تعلیم اور فن
۲۱۔ نبوت اور ارتقاء
یہ تمام عنوانات فلسفیانہ مباحث پر مشتمل ہیں۔ ظاہر ہے فلسفیانہ مباحث کی تقسیم اپنی ذات میں ایک مستقل فلسفہ ہے جو ہر انسان کے بس کی بات نہیں بلکہ انہی کا کام ہے ،جن کے حوصلے ہیں زیاد۔
ان میں ہر عنوان اپنی ذات میں مستقل کتاب کا موضوع ہے، جس کو انہوں نے محدود اور ہم کنار کرنے کی کوشش کی ہے، یعنی کئی دریاؤں کو کوزے میں بند کیا ہے۔اگرچہ ہم فلسفہ و نفسیات کے طالب علم رہے ہیں ۔ اور ان کی مبادیات کی کچھ نہ کچھ شد بد رکھتے ہیں، تاہم ڈاکٹر رفیع الدین جیسے عظیم فلسفی کی بات کو سمجھنا پھر سمجھ کر اس پر تبصرہ و تنقید گویا تاروں کے جھرمٹ کو مٹھی میں لانے کے مترادف ہے جس کی ہم مجال نہیں رکھتے البتہ کسی ایک زبان کا ترجمہ دوسری زبان میں کرنا باقاعدہ ایک فن ہے۔ اس کے لئے مترجم کو دونوں زبانوں پر کامل عبور ضروری ہے جو ناممکن نہیں البتہ مشکل ضرور ہے۔ اسی لئے اہل علم اس کو امر صعب گردانتے ہیں۔اگرجبینیں شکن آلود نہ ہوں تو عرض کروں کہ کسی کسی جگہ ترجمہ میں ثقالت کا پہلو غالب ہے جو قاری کی جبیں کو شکن آلود کر جاتا ہے۔ایسے مقامات سے قاری صرف نظر کر کے جلدی گزر جانے میں ہی عافیت خیال کرتا ہے۔اس حوالے سے اس تحریر پر غور کیجئے:
’’علاوہ ازیں یہ صورت حال غیرمعمولی باحیات کی نفسیاتی سطح پر بھی ہے یا یوں کہنے کے مترادف ہے کہ کوئی شخص بیماری کے خلاف مدافعت نہیں کر سکتا جب تک کہ وہ مکمل طور پر صحت مند نہ ہواور وہ مکمل طور پر صحت مند نہیں ہو سکتا تاوقتیکہ وہ کچھ دیر کے لئے متواتر بیماری کے خلاف مدافعت نہ کرے۔ چونکہ مؤخر الذکر صورت میں ہر دوا اچھی صحت اور بیماری کے خلاف مدافعت مقوی اور توانائی بخش غذا کے باقاعدہ استعمال ہی سے یقینی ہو سکتی ہے اس لئے اول الذکر صورت میں ہر دو توانا ذات Healthy Self یا یوں کہیے کہ خود آگہی کی بلند سطح اور اخلاقی عمل (بد اخلاقی کے خلاف مدافعت) ذات کو نبی کے حیات پرور علم کی باقاعدہ خوراک فراہم کرنے گویا کہ اس کی مکمل اطاعت کرنے ہی سے یقینی ہو سکتا ہے۔‘‘
ایسی مثالیں ترجمہ کے اندر جا بجا ملتی ہیں۔ مثلاً ’’ہمارا مشاہدہ ہے گو حیات اور مادہ ہمیں ایک دوسرے سے مختلف دکھائی دیتے ہیں، تاہم دونوں کی حقیقت ایک ہی ہے یعنی شعور مزید برآں مادہ کے اندر عمل کی لگن کو متعین یا یک رنگ ہی کیوں نہ ہو، تاہم خاصۂ حیات ہے۔‘
رفیع الدین فلسفہ کے آدمی تھے۔ ظاہر و باطن کا بھی اپنا فلسفہ ہے۔ بسا اوقات حسن ظاہری حسن باطن پر غالب آ جاتا ہے، لیکن اہل نظر کتاب کے حوالے سے باطنی حسن ہی کے متلاشی ہوتے ہیں اور کسی بھی تحریر کو اسی نظر سے جانچتے اور پرکھتے ہیں، جبکہ ایک عامی شخص کی نظر حسن ظاہر پر ہی اٹک کر رہ جاتی ہے۔
نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب حاضر کی
یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے
مذکورہ عنوانات پر تبصرہ و تنقید ہمارا مقام نہیں ،تاہم ہم ان بارہ عنوانات میں ایک عنوان کا اضافہ کرنے کی جسارت ضرور کرتے ہیں ۔ یہ عنوان ہے ’’ظاہر و باطن کا فلسفہ‘‘
ظاہر و باطن کا بھی اپنا ہی فلسفہ ہے۔ ان دونوں میں ظاہر کا فلسفہ الگ ہے باطن کا فلسفہ الگ ۔ لوگ ظاہر پر مرتے ہیں۔ باطن میں نہیں جھانکتے یا باطن میں جھانکنے کا حوصلہ نہیں رکھتے۔
کتاب کی طباعت اچھی ہو۔ جلد خوبصورت ہو۔ رنگوں کی آمیزش یعنی کلر سکیم جاذب نظر ہو۔ کتاب کا ٹائٹل بہت ہی خوبصورت ہو کسی دلربا کی خوبصورت تصویر بھی اس پر ہو، نورانی شکل کشادہ پیشانی والی تصویر کتاب کی جاذبیت میں اضافہ کرتی ہے۔لوگ اس کو لیٹ کر پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں اس کوشش میں تھوڑی ہی دیر میں کتاب آنکھوں سے ہٹ کر چھاتی پر آن گرتی ہے اور خوابِ خرگوش کا مزہ دیتی ہے، جبکہ اچھے مضامین سے بھری کتاب کو لوگ تکیے کے نیچے رکھ کر سو جاتے ہیں۔ ظاہر و باطن کا یہی فلسفہ ہے جو کتاب کے اخذ و قبول میں مدد دیتا ہے۔
کسی کتاب کے لکھنے اور چھپنے تک کے مراحل میں مختلف کردار سامنے آتے ہیں۔ ہر کردار کی نفسیات ایک علیحدہ کیفیت رکھتی ہے۔ سب سے پہلے اس کتاب کا لکھنے والا۔ کتاب لکھنے والوں کی دو قسمیں ہیں۔ ایک وہ جویافت کے لئے لکھتے ہیں ۔ صفحات کی قیمت کھری کرتے ہیں۔ ان کی حیثیت گوشت بیچنے والے قصاب کی سی ہے۔ جو دستی، ران، پٹھ کو گاہک کی مرضی کے مطابق الگ الگ قیمت چکاتا ہے۔ دوسراوہ شخص جو خیالات کا اسیر ہوتا ہے۔اور مطالعہ اور معروضی حالات سے متاثر ہو کر اپنی واردات سے مجبور ہو جاتا ہے اور اپنے خیالات سے مضطرب ہو کر اپنی اندرونی کیفیت کو قلم کے ذریعے دوسروں تک پہنچانے کے لئے بیتاب رہتا ہے اسے پیسوں کی پروا نہیں ہوتی۔ بلکہ اپنے خیالات قلم کے ذریعے اگل دینا چاہتا ہے۔ وہ جب تک ایسا نہ کرے اس کی بیتابی بڑھتی ہی رہتی ہے۔
ایک بات یہاں اور پیشِ نظر ہے۔’’مستقبل کا نظریہ‘‘ کو کتاب کے ہر صفحہ پر بار بار لکھنا قاری کی طبیعت پر خاصا گراں گزرتا ہے۔ اس کی بجائے اگر متعلقہ صفحات پر اس کے باب کا عنوان لکھا جاتا تو بہترتھا ،تاکہ قاری کو متعلقہ باب کی تلاش آسان ہو جاتی۔
Ideology of the Futureکو ڈاکٹر آصف اعوان نے اُردو زبان کا قالب دے کر تراجم کی دنیا میں اچھے باب کا اضافہ کیا ہے۔ جس پر ہم ان کو مبارکباد کا مستحق سمجھتے ہیں اور ان کو دعا دیتے ہیں کہ اللہ کرے زور علم اور زورقلم اور زیادہ۔