اُس بازار میں۔۔۔طوائف کی ہوش ربا داستان الم ۔۔۔ قسط نمبر12
ہر سال عرس کے موقع پر پشتینی رنڈیاں حضرت قاسم شاہؒ کے مزار پر حاضر ہوتیں اور مجرا کرتی ہیں۔ انہی حضرت قاسم شاہ ؒ کے برادرزادے حضرت علامہ میر حسن سیالکوٹیؒ ۔ علامہ اقبال کے اُستاد تھے۔ علامہ حسن ؒ کے دو بیٹے تھے نقی شاہ اور تقی شاہ ۔ نقی شاہ سے علامہ اقبال کے دو ستانہ مراسم تھے۔ ’’امروز ‘‘ کے ’’اقبال‘‘ میں نقی شاہ کے نام علامہ اقبال کے جس خط کا عکس چھپاتھا اُس میں امیر کا ذکر تھا، امیر ایک نامور طوائف ہوتی ہے۔ !
ٹبی میں کوئی دو سو کے لگ بھگ دوکانیں ، مکانیں یاڈیرے ہیں جہاں کوئی چار ساڑھے چار سو کے قریب عورتیں بیٹھتی تھیں ان کا کام صرف جسم فروشی کا تھا کیونکہ عصمت نام کی کوئی چیز بھی وہاں نہ تھی۔ ان کی دوکانیں صبح بارہ بجے کھلتیں اور رات بارہ بجے بند ہوجاتیں۔ چونکہ یہ عورتیں بیگاری مال تھیں اس لئے ان کے ٹھیکیدار ان ٹھیکیداروں کے گماشتے سر پر کھڑے رہتے۔ نرخ اور ہوس با قی سب موقوف۔ عورتیں کیا ؟ تاش کے پتے ، چوسر کی نردیں ، آم کی گٹھلیاں ، کیلے کا چھلکا ، خربوزے کے پھانک ، گنے کی پوریں ، سگریٹ کا دھواں ، عورت نہیں شارع عام ان کا وجود ایک خوفناک قہقہہ تھا ، ایک عریاں گالی ، ایک سنگین احتجاج ایک اوپن ایر تھیٹر ، ۔۔علماء سے معذرت کے ساتھ ایک عوامی شاہکار ۔
عورتیں نہیں ۔۔۔ قبریں عورتیں نہیں۔۔۔ چتائیں
عورتیں نہیں ۔۔۔۔ ہچکیاں عورتیں نہیں ۔۔۔ آنسو،
فطرت کے آنسو ، انسان کے آنسو ، عورت کے آنسو ، خون کے آنسو ، آنسو ہی آنسو ۔۔
آدمی محسوس کرتا ہے خدا خاموش ہے۔ ٹبی سے باہر بازار شیخوپوریاں ہے ۔ہیرا منڈٰ کے چوک تک رنڈیوں کے مکان اور دوکانیں ہیں۔ اس علاقہ کا سب سے بڑا چودھری سیالکوٹ کا ہے۔ کوئی درجن ڈیڑ ھ درجن لڑکیاں اس کے تصرف میں ہیں ، اس کی روزانہ آمدنی چار پانچ سو روپے ہوگی ۔اس کے پاس رائفل ہے ، گولیاں ہیں کار ہے ، سواریاں ہیں ، تانگہ ہے گھوڑیاں ہیں ، دولت ہے ، اثر ہے ، رسُوخ ہے ، غرض سبھی کچھ ہے اس لئے کہ لڑکیاں ہیں۔
شاہی محلہ کی مختلف ٹکڑیوں میں یہ خانے ہی یہ خانے ہیں۔ ایک طرف ڈینٹل ہسپتال کے نکڑ پر ، دوسری طرف شاہی مسجد کو نکلتے ہوئے چوک میں بہت سے نوجوان کھڑے رہتے ہیں۔ ان کا کام دلالی ہے ، کھُسر پھُسر ہوتی ہے ، سودا چکتا اور جسم لے کر نکل جاتی ہے۔
ہیرا منڈی کے چوک سے کوچہ شہباز خاں کے آخری سرے تک پشتینی کنچنیوں کے مکانات ہیں۔ کچھ خاندانی رنڈیاں مدرسہ نعمانیہ کے آس پاس رہتی ہیں ، اکثر مرکھپ چکی ہیں۔ بعض کی اولاد بڑے بڑوں کے گھر میں اُٹھ گئی ہے اور بعض ابھی تک پُرانے ڈگر پر چل رہی ہیں۔
ہیرا منڈی او ٹبی بازار میں بڑا فرق ہے، ٹبی محض قصاب خانہ ہے، ہیرا منڈی تصویر خانہ ایک آرٹ گیلری جہاں راتیں جاگتی اور دن سوتے ہیں۔ اس علاقہ کے بالا خانوں میں دن ڈھلے قحبہ انگڑائیاں لے کر اُٹھ بیٹھتی ہیں ، رات کی پہلی کروٹ کے ساتھ ہی بازار جگمگانے لگتاہے، کوئی نو بجے شب دروازے کھل جاتی ہیں ، ہر بیٹھک کی تیاری مکمل ہو چکی ہے ، ہر کوئی آجا سکتا ہے لیکن ان بالا خانوں میں جانے کے لئے روپیہ اور ہمت کی ضرورت ہے۔ کئی حویلیاں نسلی کنچنوں کی ہیں ، یہ لوگ مالدار ہیں ، ہر ایراغیران کے ہاں نہیں آجا سکتا، ان کے ٹھاٹھ شاہانہ ہیں ، اُن کے جسم شاہی کھلونا ہیں، اُن کی محل سرائیں جدید و قدیم کے امتزاج کا نمونہ ہیں ۔ڈرائنگ روم ہیں ، خاصہ خانے اور خلوت خانے ہیں، قالین ہیں۔ ڈوریوں سے کسے ہوئے پلنگ ہیں ، فرش پر کھچی ہوئی ستھری چاندنی ہے ، چاندی کے نقشی پاندان ہیں ، پھولدار اُگالدان ہیں ، مغلئی حقے ہیں ، دیواروں پر جلی آئینے ہیں اور چھت گیریاں ہیں ، وسط میں جھاڑہیں۔ !
ایک طرف میراثی ساز لئے بیٹھے رہتے ہیں اور جب تک گاہک نہ آئیں پھبتیاں کستے ، لطیفے جھاڑتے اور حُقے پیتے ہیں ، ان کی شکلیں عجیب سی ہوتی ہیں ہر کوئی گھن لگا ایندھن ہے اکثر جواری ڈھنڈاری ہیں ، جو کچھ رات میں کماتے دن کو ہار دیتے ہیں ، خرانٹ صورت ہیں ، چرکٹے ہیں ، نٹ کھٹ ہیں ، چیپرغٹو ہیں ، اول جلول ہیں لیکن ہیں آٹھویں گانٹھ کمید ، انہیں رنڈیوں کے لاحقے اور سابقے کا نام دینا زیادہ بہتر ہے ، عام گنوارنیں انہیں اُستاد جی کہتی ہیں ۔فطرت نے رنڈی کے چہرے سے حیا اور میراثی کے چہرے سے رونق دونوں چھین رکھی ہیں۔
جب شوقین مزاج آتے ہیں تو یہ ایک نظر میں اُن کا جائزہ لیتے ہیں ۔ان کا قیافہ عموماً درست ہوتا ہے ۔کوئی مالدار ہو تو اُن کی آنکھیں شکرانہ پڑھتی نظر آتی ہیں ۔ان کے چہروں کا اُتار چڑھاؤ گاہک کی جیب پر ہوتا ہے ۔وزنی جیب ، مرمریں جسم ، طبلہ کی تھاپ ، گھنگھروؤں کی چھن چھن ، سارنگی کا لہرا ، باجے کی کمک آواز کا شعلہ ، غرضیکہ ہر شے سروں میں گھنی ہوتی ہے ، گاہک آتے اور جاتے ہیں جب کوئی آتا ہے تو کواڑ بند ہوجاتے ہیں ، نہیں تو کھلے رہتے ہیں۔ کواڑ کھلے ہوں تو کسبیاں بھی کھلی ہوتی ہیں ، کچھ فلمی رسالے یا جنسی ناول پڑھتی ہیں ، کچھ گاہکوں کی راہ تکتی ہیں کچھ سگرٹ سُلگا کر دھوئیں کے مرغولوں میں ان اجنبی مردوں کا تصور باندھتی ہیں جو انہیں کھلونا سمجھتے اور جنہیں یہ کھلونا سمجھتی ہیں ، لیکن کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنی یا دکی ٹیسیں چھوڑ جاتے ہیں ، ان کسبیوں کے والدین ان کے ساتھ رہتے اور کمائی کھاتے ہیں۔ فی الجملہ ان سے پورا خاندان پلتا ہے ۔
اُس بازار میں۔۔۔طوائف کی ہوش ربا داستان الم ۔۔۔ قسط نمبر 11پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
جب رات ذرا اور گہری ہوجاتی ہے تو شاہی محلہ کی اندھیری گپھاؤں اور قلعہ کی سیڑھیوں کے نشیبی دورا ہہ پر طرح طرح کی کاریں آکر رُک جاتی ہیں اور اُس وقت تک کھڑی رہتی ہیں جب تک عشق کے ساز ٹوٹ نہیں جاتے اور حُسن کی موتیا کملا نہیں جاتی یا جب تک سوہنی کا جسم تھک نہیں جاتا اور مہینوال کی ہمت ٹھٹھر کریخ بستہ نہیں ہوجاتی ۔ بعض کن رسیے محض دیوارکے سہارے کھڑے رہتے اور کبھی کبھار سایہ دیوار ہی میں ان کی رات بستر ہوجاتی ہے۔
اور جب ہر طرف بکھری ہوئی مسجدوں کے میناروں سے’’ الصلواۃُ خیر من النوم ‘‘کی آواز گونجتی ہے تو خانزادوں کی رنگا رنگ کاریں بھرویں میں سارے گاما پا دھانی گاتے ہوئے بگٹٹ ہوجاتی ہیں اور اُن کے تعاقب میں کتوں کے مدھر گیت دور تک چلے جاتے ہیں۔ سورج جاگتا ہے قحبہ سوجاتی ہے اور اگر کچھ رہ جاتا ہے تو حکایت شبینہ کے غیر مرئی حروف جن سے چہروں پر ایک تھکن سی ہوتی ہے۔
(جاری ہے۔۔۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)