تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 30
اکبر کے عہد عروج سے عالمگیر کے عہد زوال تک خانہ جنگی کے علاوہ کوئی بغاوت ایسی نہیں ہوئی جس نے شہنشاہی کی بنیاد ہلادی ہو۔تاہم ان زمانوں میں جب لولے لنگڑے تک ہتھیار باندھے تھے اور زنبوریں چلاتے تھے اور چھوٹے موٹے زمیندار تک مٹی کی گڑھیوں پر توپس چڑحاتے تھے اور آتش بازوں کی پرورش کرتے تھے۔سڑکیں ناہموار اور ہاہا کار کرتے ہوئے دریاؤں سے کٹی پھٹی ہوتی تھیں ۔صحرا بے آب وگیا ہ جنگل وشوار گزار اور پہاڑ ناقابل عبور ہوا کرتے تھے۔عامیوں کے لئے اس فوج سے بغاوت آسان تھی جس کا اسلحہ ان سے بہت بہتر نہ تھااور جو صرف اپنی تنظیم ،تربیت اور طاقت کی بنا پر باغیوں کو کچل دیا کرتی تھیں۔
تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 29 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
شاہ جہاں آباد دنیا کے عظیم الشان شہروں میں شمار کیا جاتا تھا۔سارے جہان کی دولت سے آباد اور مغلوں کے عہد زریں کی نعمتوں سے مالا مال تھا ۔چین سے یورپ تک ہندوستانی تاجر پھیلے ہوئے تھے ۔جو سوتی ریشمی ،اونی کپڑے ،سونے چاندی ،پیتل ،تانبے ،ہاتھی دانت کی مصنوعات برآمد کرتے تھے اور اپنے دار السطنت کو سارے جہان کے نوادرات سے مزین کرتے تھے ۔عرب کے گھوڑے حلب کی تلواریں ،عدن کے موتی ،اصفہان کے قالین ،چین کا ریشم ،خطا کاسمور ،مغرب کے آلات و شیشہ جات ،متوسط طبقے کی معیشت کی رسائی میں تھے۔نچے طبقے کی عورتوں کے ہاتھوں میں سونے اور پیروں میں چاندی کے زیور نظر آتے تھے ۔
سونے چاندی کی بہتی ہوئی گنگا نے جفاکش مغلوں کی نفسیات بگاڑ دی تھی ۔گھوڑوں کی پیٹھ پر تلوار ہلاتے ہلاتے بوڑھی ہوجانے والی قوم پر تھکن طاری ہوچکی تھی۔ہاتھیوں کی چھتر دار گدیلے ہودجوں ،گھوڑوں کی دلہن بنی ہوئی زینوں اور فولاد کے مردانہ زیوروں سے گی اُکتا گیا تھا۔اب وہ قاقم ومنجانب کے لباس اور جواہرات کے زیور پہن کر سونے کے ہوا داروں اور چاندی کی پالکیوں پر چلنے لگے تھے۔پتھریلی گلیوں کے فلک بوس محلوں کے خشک چمکیلے تہہ خانوں میں حور شمائل کنیزوں کے پرے اٹکھیلیاں کرتے تھے اور پازیب کے گھنگرو اور رباب کے نغمے گنگناتے تھے۔تصویر کی طرح سجے ہوئے باغوں اور قالینوں کی طرح بچھے ہوئے نغموں کی محبت دل میں بیٹھ چکی تھی ۔بڑے بڑے امیروں کے حرم اصطبل کی طرح دیس دیس کی عورتوں اور قسم قسم کی حیا سوز عشرتوں سے بھرے پڑے تھے ۔ایک ایک دن میں سو سو میل کا دھاوا کرنے والے سپہ سالار قدم قدم پر منزلیں کرتے تھے ۔سیاہ زلفوں کی چھاؤں میں دم لیتے تھے اور سنہرے پیالوں اورجسموں کی گردش سے تھکن دور کرتے تھے۔ ان دسترخوانوں پرروح کی تسکین حاصل کرتے تھے جن کی قابوں کا شمار عام طور پر سو سے زائد ہوا کرتا تھا۔ اس کاہلی نے کام چور اورکام چوری نے سازش اورسازش نے تو ہم کو خون میں شامل کردیا۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ جب نیا گھوڑا خرید کر آتا تو اس پر سواری کے لئے مقدس گھڑی کی جستجو کی جاتی۔نجومیوں کی تنخواہ کے علاوہ تحائف دے کر مبارک ساعت کا علم حاصل کیا جاتا اورنجومی اپنا بازار قائم رکھنے اور اپنے وجودکا جواز برقرار رکھنے کے لئے اس درجہ انتظار کراتے کہ گھوڑا بوڑھا ہوجاتا۔(جاری ہے )
تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 31 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں