تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 29
عشاء کی اذان ہوچکی تھی۔ فتح پور مسجد بقعہ نور بنی ہوئی تھی۔ مرمریں حوض پر لوگ وضو کررہے تھے۔ سرگوشیاں رینگ رہی تھیں۔ امام کے انتظار میں کچھ لوگ نفلیں پڑھ رہے تھے اور کچھ سرجھکائے بیٹھے تھے کہ ایک شخص نے صف سے گردن نکال کر دوسرے کو مخاطب کیا۔
’’سنا سید صاحب آپ نے ،گونگے میاں نے پیشین گوئی کر دی
’’کون گونگے میاں ؟‘‘
’’وہی چتلی قبر والے جنہوں نے شہر یار کے قتل اور ظل سجانی کی تحت نشینی کی بشارت دی تھی۔‘‘
تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 28 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’کیا پیشین گوئی کی ؟‘‘
بہت سی آوازوں نے ایک ساتھ سوال کیا۔
عصر کی نماز کے بعد مراقبے سے سراُٹھا یا ۔چیخ کر خادم سے کہا۔
’’پانی لاؤ ،نہالوں ۔شہنشاہ کی نما ز پڑھانا ہے۔‘‘
خادم نے دوڑ کر حمام تیار کر دیا ۔جب اطلاع دینے آیا تو بولے۔
’’جارحیم آہنگر سے کہہ کر ہماری تلواریں جلد بھیجے ۔ہم دارا سے جہاد کرنے جارہے ہیں ۔‘‘
’’جہاد کرنے ۔‘‘
کئی آوازوں نے تکرار کی اور سناٹا چھا گیا،پھر امام صاحب لمبے لمبے ڈگ رکھتے آئے مکبر سے بولے۔
’’تکبیر کہو تکبیر ،نماز پڑھو اور گھر جاؤ ،گونگے میاں گرفتار ہوگئے ‘‘
’’گونگے میاں گرفتار ہوگئے ۔‘‘
’’مگر کیا ان کی گرفتاری سے تقدیر کا لکھا ٹل جائے گا ۔‘‘
متھرا کی جس مسجد کو دارا نے مسلمانوں سے چھین کر ہندوں کو بخش دیا تھا ،اس کے چاروں طر ف لگی سنگ مر مر کی جالیاں تباہ ہو گئی تھیں ۔جنہیں دارا نے صرف خاص سے دوبارہ تیا ر کرایا تھاجس دن میرا خطے میں لائی گئیں اسی دن متھرا پہنچائے جانے کا حکم ہوا۔میرا کی بصیرت نے دارا خلافے کی سیاست کو دیکھ لیا تھا۔اس لئے اہتمام کیا تھا کہ جالیاں لے جانے والی گاڑیاں آدھی رات کو شہر پناہ سے گزاردی جائیں اور وہ گز ر بھی گئیں لیکن شہر پناہ کے دروازے پر کسی دید بان نے محافظوں سے پوچھ لیا کہ یہ گاڑیاں کہاں جا رہی ہیں۔سوار نے دارائی ملازمت کے نشے میں ہانک دیا کہ متھرا کے چنتامنی مندر کے لئے جارہی ہیں اور دارا کے حکم سے جارہی ہیں۔یہ کوئی اہم معاملہ نہ تھا ۔دارا اس سے پہلے بھی کشمیر اور بھکڑے کے مندروں کی تعمیر کر چکا تھا۔جاگیریں بخش چکا تھا لیکن مخصوص حالات نے اس واقعے کو اور ہی رنگ دے دیا ۔
نواب عیسی بیگ ،جو شہر کے چپہ چپہ پر لگے ہوئے اور رنگ زیب کے جاسوسوں کا سربراہ تھا،اس خبر سے محظوظ ہوا۔اس کے لوگوں نے سارے شہر میں مشہور کر دیا کہ دارا نے منت مانی تھی کہ جس دن میں شہنشاہ ہو جاؤں گا ،اسی دن مندر کی آرائش وزیبائش کا سامان کروں گا اور رات شہنشاہ مر گیا ۔آج اس نے تاج پہن لیا ہے لیکن مصلحتاََ اعلان نہیں کر رہا ہے ۔
شہنشاہ کے دیدار سے محروم رعایا نے اورنگ زیب کی پھیلائی ہوئی اس افواہ کو آسمانی حکم کی طرح مان لیا کہ دارا شکوہ نے ظل سجانی کو معزول کر دیا ہے اور سلطنت کو غضب کر لیا ہے۔یہ خبر بھی ہر بری خبر کی طرح شاہی ترویدوں اور تلواروں کے حصار توڑ کر سارے شہر میں پھیل گئی ۔پھر ہندوستان کا گشت کرنے کے لئے ہوا کے گھوڑے پر سوار ہوگئی ۔
مغل اقبال کی دوپہر ہوچکی تھی ۔غزنیں سے راس کماری اور آسام سے گجرات تک تمام ہندوستان شاہ جہانی پرچم کے سائے میں تھا ۔عہد وسطی کی روایتی شجاعت کے نشے میں چور خان اور سنگھ راجے اور نواب جب اپنے عشرت کدوں میں قید دنیا بھر کی نعمتوں کی یکساں لزت سے اُکتا جاتے تو چر بی چڑھے ہوئے گھوڑوں پر ساز رکھتے ،غلاف میں سوئی ہوئی تلوار بیدار کرتے اور تھوڑی سی بے ادبی کر کے جلاوت کے بھولتے ہوئے سبق یاد کر لیتے ۔جب سپہ سالار کی مرصع کمرے سے کھڑ کھڑاتی ہوئی تلوار علم ہوتی اور سپہ گری کا حوصلہ نکل چکتا تو معافیوں کی زنجیروں سے کمر باندھوا کر دربار میں حاضر ہوجاتے اور خلعت پہن کر اپنے اپنے گھروں کو رخصت ہوتے۔(جاری ہے )
تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 30 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں