تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 28
مغرب کی اذان ہو چکی تھی۔چاندنی چوک کا آباد مشعلوں،چراغوں،پنشاخوں،شمعوں،جھاڑوں اور فانوسوں سے چگمگا رہا تھا۔سفید پھولوں کے گجروں سے مہکتے ہوئے عطریات میں بسے ہوئے ململ کے جامے،آب رواں کے نیمے،چکن کے انگر کھے،سفید ریشم کے کرتے صافے،عمامے اور تکونے رومال،چھڑکاؤ کی ہوئی ٹھنڈی چوڑی سڑکوں پر موجوں کی طرح بہہ رہے تھے۔عربی،عراقی اور کاٹھیا واڑی گھوڑوں کے سیمیں اور زرں جھانجھوں کے گھنگرو چھنک رہے تھے سبک روتھوں کے سجیلے بیلوں کے سموں کی آوازیں گمک رہی تھیں،تحت رواں،ہوادار ،پالکیاں او ر نالکیاں بھڑ کیلی وردیوں میں ملبوس کہاڑوں کے مضبوط کاندھوں پر اڑی جاری تھی، چاندنی کے فرش پر مسندوں سے لگے ہوئے خوش باشوں کا ہجوم تھا۔خادم کھجور کے بڑے بڑے پنکھے ہلا رہے تھے۔فالودے اورشربت کے گلاس کر رہے تھے۔کلابتوں کے گل بوٹے پہنے سیمیں چیزوں کے تاج لگائے،چاندی کے دست پنوں کو گلے میں حمائل کئے سبک سجل حقے خوشبودار دھواں اڑا رہے تھے۔
تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 27 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
اس وقت داستان پڑھنے والا دوزانو بیٹھا شمعوں کی تیز روشنی میں بادامی کاغذ کی لمبی سی کتاب کے ورق الٹ رہا تھا کہ کسی منچلے نے آواز لگا ئی۔
’’آج کاپاٹھ پر بھو کے نام سے آمبھ ہو گرودیو۔‘‘
’’وہ کیوں؟‘‘
کسی نے جانتے بوچھتے انجان بن کر پوچھا۔
’’دھیرج سے کام لو مہاراج!اگر چکر ورتی مہاراج دارجی کو کبھی چالک نے سن لیا تو دیش وردھی کا ریہ کرم میں دھر لئے جاؤ گے۔‘‘
داستان پڑھنے والے نے کتاب پر سے جھانک کر دیکھا،کتاب بند کر کے رکھ دی۔قریب بیٹھے ہوئے آدمی کے کان پرمنہ رکھ دیا اور سرگوشیاں بھنبھنانے لگا۔
آگے بڑھ کر دلن باورچی کی دکان تھی،بجھے ہوئے گولوں پر دیگیں چڑھی تھیں۔
پتیلے اترے ہوئے رکھے تھے۔گھی،مصالحے اور زعفران سے معطر بھانپ کے مرغولے تیر رہے تھے۔خریداروں کی بھیڑ لگی تھی۔کھانے سے بھرے ہوئے بادلے ،طباق،بکاولی ،کف گیر،طعام بخش سب ایک گردش میں تھے کہ کسی دل جلے نے فقرہ دیا۔
’’دلن میاں لاؤ دھیلے کا ہر یسا آج اور کھلا دو‘‘
’’یہ آج کی کیا شرط لگا دی میاں جی۔اللہ چاہے گاتو دلن کے مرنے کے بعد بھی کھاتے رہو گے‘‘
’’کس خواب خرگوش میں پڑے ہو دلن میاں۔گل اگر داراجی مہاراج سنگھ سن پر براج گئے تو پرسوں سے گوشت کا قصہ ختم سمجھو‘‘
’’کیا کہ رہے ہو میاں ؟‘‘اور بحث چھڑ گئی۔
کچھ دور چل کر میاں زعفران کی ڈیوڑھی تھی۔داہنے پہلو کی سہ دری میں شیریں رکا بدار کی دکان تھی۔رنگ برنگ قندیلوں،چمکیلے تھالوں،معطرحلوؤں،مربوں اور مٹھائیوں سے دلہن کی طرح سجی ہوئی تھی،سیڑھیوں پر بہار مالی پھولوں کے گجروں،ذیوروں اور ہاروں کا تختہ لگائے بیٹھا تھا۔بارہ دری کے سامنے مسطح چبوترے پر بلوریں گلاسوں میں مومی شمعیں روشن تھیں۔پانی سے بھیگے سرخ پتھر کے چبوترے پر تخت بچھے تھے۔شطرنجی پر سوتی قالین پڑے تھے۔روپے کی گھڑونچیوں پر کوری کوری گلابی ٹھیلیاں تول کر صافیاں باندھے کنواریوں کی طرح ساون کی سرخ اوڑھنیاں اورھے شرما رہی تھیں۔چوکی کے پاس ایک منٹ خدمت گار شوزمے کی صراحیاں ہلا رہا تھا۔برابر کی ننگی چوکی پر برف کے آب خورے لگے تھے۔
ایک طرف ایک موٹا تازہ سیاہ فام آدمی ریشمی تہبند باندھے ،ہاتھو ں میں چاندی کے تین گھنگرو پہنے لمبی چوڑی سل پر بھنگ پیس رہا تھا ۔دوسرا ملازم چبوترے کی کگر پر کھڑا اس طرح نیچے تازے کر رہا تھا کہ سارا پانی کامنی کی جھاڑی پر گر رہا تھا۔ایک سنگین کرسی پرمیاں زعفران آب رواں کا جامہ اور زنین لکھ کا ایک برکا پانجامہ پہنے سر پر قالب سے اُتری ٹوپی رکھے ،داڑھی میں مہندی ،آنکھوں میں سرمہ ،کان میں عطر کی پھریری لگائے ،بازو پر تعویذباندھے خوشبو دار تمباکو کا دھواں اُڑا رہے تھے۔قدموں کی چاپ پر ہونٹوں سے نے نکالی آنکھوں پر ہتھیلی کا چھجہ بنایااور چہکے۔
’’واہ مرزا صاحب ! آپ نے تو مرغے بلا دئیے‘‘
مرزا نیچے تازہ کرتے ہوئے آدمی کے پاس ٹھٹک گئے ۔میاں زعفران کی سنی ان سنی کر کے اسی سے مخاطب ہوئے۔
’’بھائی ،ذرابولتا ہوا ہمدم (حقہ )لگانا‘‘
اور خود میاں زعفران والے حقے پر ڈھے گئے۔
زعفران کے ہاتھ کے اشارے پر ایک خدمت گزار فرشی پنکھا لے کر کھڑا ہوگیا۔
زعفران نے تشویش ناک آواز میں مخاطب کیا۔
’’خیر تو ہے مرزا صاحب ! کیا نصیب دشمناں کچھ مزاج‘‘
’’ناساز ہونے والا ہے‘‘
’’پہیلیاں نے بھجوایئے‘‘
’’پہیلیاں ؟اماں سارے شاہ جہاں آباد میں آگ لگی ہوئی ہے اور تم سمجھ رہے ہوکہ ہولی جل رہی ہے؟قدم قدم پر پہرے پڑے ہیں ۔مسجدوں کے دروازوں پر جاسوس کھڑے نمازیوں کے نام لکھ رہے ہیں ۔گھر گھر دوڑ کر آرہی ہے ۔وہ تو سبزپری کا بھلا ہوکہ بوسے لئے بغیر چین نہیں پڑتا ۔ورنہ کیا آج گھر سے قدم نکالنے والا تھا۔‘‘
مرزا صاحب نے ایک ہی سانس میں اُگل دیا۔
’’میں اب محروم ہوں مرزا صاحب ‘‘
’’اوں ہوں !تو یہ ہے پیر نابالغ صاحب ،ظل سجانی گھڑیاں گن رہے ہیں ۔تینوں شہزادے سینکڑوں میل دور اپنے صوبوں پر بے خبر بیٹھے ہیں اور دار بادشاہی کا انتظام پختہ کر چکا ہے۔آج کل میں جلوس کیا چاہتا ہے ۔بس یہ سمجھوزعفران کہ جس گھڑی اس نے تاج اوڑھا ،وہ ہندو گردی ہوگی ،وہ ہندو گردی ہوگی کہ سات سو برس کی حکومت کا خمار سات گھنٹو ں میں اُتر جائے گا‘‘
’’واللہ یہ تو بری مراصاحب آپ نے۔‘‘
’’کورنش بجالاتا ہوں مرزا صاحب۔‘‘
شاہ جہاں آباد کے اس ’’نائٹ کلب‘‘ کے دوسرے ممبر آنے لگے اور دارا شکوہ کے نقشے نکالنے لگے۔ (جاری ہے )
تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 29 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں