تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 27
مقصورے کے سامنے کھڑے ہوکر قاضی القصناۃ نے اعلان کیا۔
’’مہین پور خلافت،ولی عہد سلطنت شاہ بلند اقبال سلطان داراشکوہ اپنی رعایا کوتحائف کا شرف عطا کر رہے ہیں۔توقع کی جاتی ہے کہ رعایا ارشادات عالیہ کو گوش دل سے سماعت کرے گی اور خلوص قلب سے عمل کرے گی۔‘‘
پھر داراشکوہ کی طرف سر جھکایا،
داراشکوہ منبر پر کھڑا ہوا۔نمازیوں پرنگاہ ڈالی ۔نمازیوں نے ایک طرف ہی نظر میں جوشن،جگنو،کمر بند اور انگوٹھیوں کے نقش دیکھ لئے اور پڑھ لئے۔
’’لوگو!
تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 26 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
انسان پر دو قسم کے فرائض عائد کئے گئے ہیں ۔ایک وہ جو اس کے اوپر پر وردگار کے ما بین ہوتے ہیں اور دوسرے وہ جو اس کے اور دوسرے انسانوں کے درمیان ۔خدا کے حقوق کی ادائیگی کا پیمانہ وہ عبادات ہیں جن کا مذہب نے حکم دیا ہے۔سماج کے حقوق کی ادائیگی کا اظہار ہمارے وہ اعمال ہیں جو اپنی مدنی زندگی میں انجام دیتے ہیں ۔جہاں تک خدا کے حقوق کے ادا کرنے اور یا نہ کرنے کا سوال ہے تو ہمیں چاہیے کہ ایسے انسان کو جو خدا کے حقوق ادا نہیں کر تا ،خدا ہی کو سونپ دیں ۔اسے خدا کے حوالے کر دیں جو رحیم وکریم بھی ہے اور جبار وقہار بھی۔اب رہے دوسرے قسم کے حقوق ،جن کی ادائیگی کا تعلق جماعت کی مدنی زندگی سے ہے۔تو ہمارا جن کے ہاتھوں میں جماعت کے انتظام وانصرام کی عنان ہے،فرض ہے کہ ان کی ادائیگی کی نگرانی کریں ۔جو ہم کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔یعنی اگر ایک شخص نماز نہیں پڑھتا ،روزہ نہیں رکھتا تو ہم اس پر حد نہیں لگاتے ۔اس لئے کہ خدا خود اپنا حساب چکا لے گا ۔لیکن اگر کوئی شخص شراب پی کرفساد کرتا ہے اور جماعت کی مدنی زندگی میں خلل انداز ہوتا ہے یا زنا کرتا ہے اور ایک دوسرے انسان کی مدنی زندگی کو غارت کرتا ہے تو ہم اس کا مواخذہ کرتے اور سزادیتے ہیں ۔
لوگو!
ہم پر الزام لگایا گیا ہے کہ ہم نماز نہیں پڑھتے ،روزہ نہیں رکھتے ۔اگر یہ سچ ہے توبھی ہم کو ہمارے حال پر چھوڑ دو اور اس دن کا انتظار کرو جب اس زمین کا تختہ اُلٹ جائے گا۔
آفتاب سو انیزے پر بلند ہو گا۔پہاڑروئی کے گالوں کی طرح اڑجائیں گے اور ہم اپنی اپنی قبروں سے اپنے اپنے اعمال نامے اپنی گردنوں میں ڈال کر اٹھیں گے اور میزبان عدل برپا ہو گی اور ہمارا حساب ہو گا۔اگر خدا ہمارے گناہوں کو بخش دے گا تو یہ اسکی رحمت بے پایاں کا کرشمہ ہو گا اور اگر ہم کو ابدالآباد تک جہنم کا ایندھن بنانا مقدر ہوا تو ہمارے گناہوں کی پاداش ہو گی۔
لیکن
اگر ہم نے شراب پی کر تمہارے حقوق کو پامال کیا ہو۔
تمہاری مقدس عورتوں پر مجرمانہ نگاہ کی ہو۔
تم سے قرض مانگا ہوا اور ادا نہ کیا ہو۔
تم انصاف مانگنے آئے ہو اور ہم نے کانوں میں انگلیاں دے لی ہوں۔
تم ظالم کی شکایت لے کر آئے ہو اور ہم نے تلوار کو غلاف کر لیا ہو۔
نہیں!
تم سوال لے کر آئے ہو اور ہم نے سکوت اختیار کیا ہو۔
تو تم کو قسم ہے اس ذات کی جس کو عزیز رکھتے ہو۔کھڑے ہو جاؤ اس مقدس مقام پر اپنا حق مانگو۔اگر ہم عاجز ہو جائیں تو ہماری بوٹیاں اڑ کر اسی شاہ جہانی مسجد کی سیڑھیوں پر ڈال دو،
مسجد کے گنبد و مینار ومحراب دارا کی خطابت کے سامنے خاموش کھڑے تھے۔انسان پتھر کے مجسموں کی طرح سن رہے تھے۔
’’لیکن اگر تم سلطنت کے بدخواہوں کے فتنے کاشکار ہو گئے۔کسی ناپاک سازش کا نشہ پی کر اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھے۔حق و نا حق کی تمیز سے دور ہو گئے تو یاد رکھو کہ ظلِ سبحانی کا سایہ ہمارے سروں پر قائم ہے ۔ہماری کمر میں تلوار محفوظ ہے۔ہماری رکاب میں وہ قاروجابر لشکر موجود ہے جو ایک ایک گلی اور ایک ایک کوچے کو انصاف سے بھردے گا۔
بس!
ہماری خدا سے دعا ہے کہ شہنشاہ کی صحت اور تم کو نیک ہدایت فرمائے،
آمین !
ثم آمین!‘‘(جاری ہے )
تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 28 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں