تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 26
سنگ مر مر کی مرصع نہر معطر پ انی سے لبریز ہوگئی۔ مطلیٰ فوارہ آب بہشت سے اچھلنے لگا۔ غلام ابھی جامے کے تکمے لگارہے تھے کہ رائے رایاں رگھوناتھ راؤ کی درخواست بازیابی موصول ہوئی۔ اشارے پر خواجہ سرا بسنت پیشوائی کو بڑھا۔ رائے رایاں کورنش ادا کرکے دست بستہ کھڑے ہوگئے۔ دارا کی نگاہ اٹھتے ہی دو دو شہنشاہوں کی بساط سیاست کے تجربہ کار بوڑھے شاطر نے گزارش کی۔
’’شیخ سعدی ؒ نے فرمایا ہے کہ دانا بادشاہ ان مسئلوں کو جنبش ابرو سے حل کردیا کرتے ہیں جنہیں بے وقوف بڑے بڑے لشکروں سے سلجھا نہیں پاتے۔‘‘
’’رائے رایاں قول کی وضاحت کریں۔‘‘
تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 25 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’صاحب عالم کے خلاف مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو اکسادیا گیا ہے۔ شاہ جہاں آباد سے اکبر آباد تک کی ایک ایک مسجد میں ہندو پرست ولی عہد کے خلاف مجاہدین کی تلواریں تیز ہورہی ہیں۔ یہ سچ ہے کہ حکم ملتے ہی شاہی لشکر انہیں اس طرح پیس کر ڈال دے گا جیسے ہاتھی گنے کے کھیت کو روندتا ہے لیکن سیاست کا تقاضا اور اس بندہ درگاہ کا مشورہ ہے کہ صاحب عالم آج اپنے لباس کے وہ پرانے جواہرات جن پر شیو کی تصویر، وشنو کی شبیہ بنی ہے اور پربھو کے الفاظ کندہ ہیں، زیب تن نہ فرمائیں۔ ان کی جگہ ایسے جواہرات استعمال فرمائیں جن پر۔۔۔‘‘
’’رائے رایاں! تم داراشکوہ کو دربار کا مسخرہ سمجھتے ہو؟ جو چند جگمگاتے انعاموں کی خاطر گرگٹ کی طرح ایک وقت میں دس رنگ بدل سکتا ہے؟‘‘
’’ظل سبحانی نے مابدولت کو ولی عہد نامزد فرمایا ہے، مہین پور خلافت کا خطاب عطا کیا ہے۔ اس لئے مابدولت سلطنت کو اپنا حق خیال فرماتے ہیں۔ ورنہ یہ تو تخت طاؤس ہے۔ دنیا اگر تخت سلیمانی بچھادے تو بھی دارا شکوہ اپنے اصولوں کی بھینٹ چڑھا کر اس پر جلوس فرمانا کسر شان خیال فرمائے گا۔‘‘
’’غلام اس جسارت کے لئے معافی چاہتاہے۔‘‘
رائے رایاں نے جیغہ زریں اور مالائے مروارید سے مرصع مندیل جھکادی۔
’’ہم تمہاری مصلحت کوشی اور سیاسی دور بینی کی داد دیتے ہیں لیکن یہ دونوں ولایتیں اورنگزیب کو مبارک ہوں۔ ہمارے لئے حق، اصول اور وضع داری کا شاہ جہاں آباد کافی ہے۔‘‘
بازوؤں پر وہ جوشن آراستہ کئے گئے جن کے مرکزی ہیروں پر سنسکرت میں برہما کے الفاظ کندہ تھے۔ کمر میں وہ مرصع پٹکہ باندھا جس کے قلب میں شیو کی مورتی رکھی تھی۔ گلے میں وہ جگنو پہنا جس کے انڈے کے برابر یاقوت پرشیو ناچ رہے تھے۔ شعلوں کی طرح جگمگاتی پگڑی سر پر رکھی اور باہر نکل آیا۔ دراز قد اور دوہرے قسم کے اوزبک گرز بردار سبز اطلس کے جامے پہنے، سبز مندیلوں پر سنہرے طرے لگائے، سونے چنادی کے گرز لئے اس کی پشت پر چلے۔ نوبت خانے پر بڑے بڑے مرزاؤں، خانوں اور سنگھوں کے حلقے میں ’’فلک شیر‘‘ نامی سفید شاہ جہانی گھوڑا موتیوں کا ساز پہنے کھڑا تھا۔ تسلیمات قبول کرکے رکاب میں پاؤں رکھا۔ لاہور دروازے سے جیل القدر امیر اور نواب اور راجے اپنی سواریوں پر سوار ہوگئے۔ راجہ نرپت سنگھ نے زرد کم خواب کے مرصع چھتر کی زریں ڈانڈ اٹھالی۔ نشان کے ہاتھی طوغ اڑاتے ہوئے آگے آگے چل رہے تھے۔
پشت پر نقارے گرج رہے تھے اور شاہزادے کے مغرور علم لہرارہے تھے۔ سواری کے دونوں بازوؤں پر اشرفیوں اور روپیوں کے تھال تھے جو دعائیں دیتے ہوئے محتاجوں اور فقیروں میں لٹ رہے تھے۔ جامع مسجد کا طواف کرتی ہوء ی سڑک سواریوں سے چھلک رہی تھی۔ ہر چند ایک پہردن چڑھے سے یہ خبر گشت کررہی تھی کہ ولی عہد جمعہ کی نماز پڑھنے کے لئے تشریف لانے والے ہیں تاہم کسی کو یقین نہ تھا۔ نقاروں کی آواز سن کر دالانوں میں بیٹھے ہوئے نمازیوں نے گردیں موڑ موڑ کر دیکھا۔ جب شاہ جہاں کا مشہور و محبوب گھوڑا کھڑا ہوگیا اور دارا سیڑھیاں چڑھنے لگا تو لوگوں کی نگاہیں سرگوشیاں کرنے لگیں۔ کئی سوراجپوتوں کا مسلح دستہ ننگی تلواریں لئے دروازوں پر کھڑا رہا۔ کئی سوازبک اور مغل محافظ اپنے لمبے ڈھیلے لباسوں کے نیچے ہتھیار پہنے دارا کے ساتھ جگہ بناتے ہوئے مقصورہ کے گرد پھیل گئے۔ سبز مخمل کا شاندار شامیانہ چاندی کے ستونوں پر کھڑا تھا۔ جہاں تک نگاہ جاتی تھی مخملیں جاء نمازوں پر قیمتی لباسوں اور رعب دار عماموں، صافوں، مندیلوں اور پگڑیوں کی قطاریں نظر آتی تھیں۔ آرام و آسائش، آسودگی اور طمانت کے غماز چہروں پر نفاست سے ترشی ہوئی سیاہ، سفید سرخ اور کھچڑی داڑھیاں پوری متانت اور شوکت سے بیٹھی ہوئی تھیں۔ چرمیں سیمیں اور زریں کمر بندوں میں آبنوس، ہاتھی دانت، سیپ، چاندی اور سونے کے دستوں کے پیش قبض جگمگارہے تھے۔ چھت پر جواہر نگار جھاڑ چمک رہے تھے۔ طاقوں پر رکھی ہوئی انگیٹھیوں میں عود و عنبر سلگ رہا تھا۔ خدام گلاس پاش ہاتھوں میں لئے خدمت پر مامور تھے۔ (جاری ہے )
تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 27 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں