تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 25

تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 25
تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 25

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

نواب نے خواجہ سرا سے دیوان خانے کے اندرنی درجے میں ملاقات کی۔ غلام خوان رکھ کر اُلٹے پاؤں چلے آئے۔ نواب نے خواجہ سرا سے سرگوشیاں کیں اور رخصت کر دیا۔
پھر قابیں کھولیں۔ بانس کے زرد کاغذ پر محط جلی کی کتاب دور سے چمک رہی تھی۔ ایک ایک قاب کے پرچے قالین پر ڈھیر کردئیے گئے۔ پھر ملازمین کی ایک قطار نے ان پرچوں کے پیکٹ بنائے اور یہ پیکٹ موم جاموں میں بند کردئیے گئے اور حلال خوروں کے ٹکڑوں اور بھشتیوں کی مشکوں میں رکھ کر ڈیوڑھی سے نکال کر منصوبے کے مطابق ان آدمیوں تک پہنچادئیے گئے جو منتظر تھے۔ دوسری صبح ایسا ہی ایک پرچہ جامع مسجد کی دیوار سے اتار کر کوتوال شہر کے سامنے پیش کیا گیا۔ مضمون تھا۔

یوٹیوب چینل سبسکرائب کرنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’خطرہ!‘‘
جو ہندوستان کی خلافت اسلامیہ کے سر پر منڈلارہا تھا۔ آج سونتی ہوئی تلوار کے مانند سامنے آگیا ہے۔ ظل اللہ کا چراغ حیات جھلملا رہا ہے اور شاہزادہ بزرگ (داراشکوہ) جس کو نماز سے نفرت، روزے سے عداوت، حج سے بغض اور زکوٰۃ سے کد ہے، شہنشاہی کے منصوبے بنارہا ہے۔ تخت طاؤس پر وہ شخص اپنے ناپاک قدم رکھنے والا ہے جو خدا کا منکر اور رسول اللہ ﷺ کی رسالت کا انکاری ہے۔ جو پر بھوکے نام کی آرسی انگوٹھی اور مکٹ پہنتا ہے۔ بظاہر یوگیوں اور سنتوں کا مداح ہے لیکن باطن راجپوتوں کی تلواروں کا سہارا لے کر ہندوستان جنت نشان سے اسلام کو خارج کردینے کا منصوبہ بنا چکا ہے۔

تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 24 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
برادران اسلام!
ہندوستان کے قاضیان عظام اور مفتیان کبار کا فتویٰ ہے کہ ایسے شخص کے خلاف تلوار اٹھانا جہاد، جہاد اکبر ہے۔ آج تمہاری عبادت تہجد کی نمازوں اور نفل کے روزوں میں نہیں، گھوڑوں کی رکابوں اور تلواروں کے قبضوں میں محفوظ ہے۔ شیروں کی طرح اُٹھو اور کفر پر اس کا دروغ ثابت کردو۔
کاغذ کے اس پرچے نے اپنے عہد کی سب سے بڑی سلطنت کا دل ہلادیا۔ خانقاہ سے دربار اور دربار سے بازار تک ایک ایک چپے نے اس زلزلے کا جھٹکا محسوس کیا۔ خواجہ سرا عنبر نے جب یہ پرچہ بادشاہ بیگم (جہاں آرا) کے حضور سے گزارا تو وہ سر سے پاؤں تک کانپ گئیں۔ اتنی بار پڑھا کہ عبارت حفظ ہوگئی۔ اسی وقت شاہ بلند اقبال (دارا) کو یاد کیا۔ دارا جو اکبر اعظم کی بنائی ہوئی عمارت میں چاند سورج ٹانگنا چاہتا تھا، اس حملے کے لئے تیار نہ تھا۔ انتہائی غیض و غضب کے عالم میں بیٹھا ہوا سوچ رہا تھا لیکن کچھ سمجھ میں نہ آرہا تھا۔ بادشاہ بیگم کا پیام سنتے ہی اُٹھ کھڑا ہوا۔ 
بادشاہ بیگم نے بھائی پر نگاہ کی۔ وہ رات کے ملے دلے کپڑوں پر نیم آستین پٹکہ اور مندیل پہن کر چلا آیا تھا۔ چہرے پر فکر کا منحوس سایہ کانپ رہا تھا۔
بادشاہ بیگم ولیوں کی سی پاک، مضبوط اور تسکین آفرین آواز میں مخاطب ہوئیں۔ ’’جائز بادشاہ کو تخت پر بیٹھنے سے روکنا آسان ہے لیکن ناجائز بادشاہ کے نیچے سے تخت گھسیٹ لینا مشکل ہے، مشکل ہے۔‘‘
دارا نے چونک کر بادشاہ بیگم کو دیکھا۔ وہ اسی طرح دارا کی نگاہوں سے بے نیاز بولتی رہیں۔
’’عزیر از جان نے ہمارے ایک قیمتی مشورے کی قدر نہ کی لیکن ہماری خاطر میں ملال نہیں۔ اس لئے کہ عزیر از جان نے باپ کی محبت پر بہن کی بصیرت کو قربان کردیا۔‘‘
’’داراشکوہ بابا‘‘
’’جی!‘‘
’’آج کون سا دن ہے؟‘‘
’’جمعہ‘‘
’’مبارک ہو، داراشکوہ بابا کو مبارک ہو، سلطنت مبارک ہو۔‘‘
بادشاہ بیگم نے اپنے دونوں ہاتھ دارا کے شانوں پر رکھ دئیے۔
’’ہماری پریشاں خیالی کچھ سمجھنے سے قاصر ہے۔‘‘
’’اٹھو، غسل کرو، خلعت فاخیرہ زیب تن کرکے ابو المظفر شہاب الدین محمد شاہ جہاں کی سواری خاص پر سوار ہوکر جامع مسجد میں درود فرماؤ۔ صاحب قران ثانی کی صحت کی دعا مانگ کر رعایا کو خطاب کرو اور شاہزادہ سوم کے خطرناک منصوبوں کو خاک میں ملا دو۔‘‘
دارا اسی طرح بادشاہ بیگم کو گھورتا رہا۔
’’کوتوال شہر کو حکم دو کہ سازش کی تحقیقات کرے۔ مجرموں کو عبرت ناک سزائیں دی جائیں۔ منادی کرادی جائے کہ جس شخص کے پاس سے یہ چیتھڑا برآمد ہوگا، اسے سولی پر لٹکادیا جائے گا۔ جس زبان سے یہ الفاظ ادا ہوں گے اسے تراش لیا جائے گا۔‘‘
’’سلطنت شربت کا شیشہ نہیں ہوتی جسے چند فسادی ویران مسجد کے صحن سے پتھر چن کر چکنا چور کر ڈالیں۔‘‘
ظل سبحانی کی علالت کے زمانے میں پہلی بار غسل خانے کے داروغہ نے اس خاص عمارت کی کرسی پر کھڑے ہوءئے گرز برداروں کا پہرہ ہٹایا جسے صرف شہنشاہ استعمال کرتا تھا۔(جاری ہے)

تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 26 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں