تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 24
مہاراجہ مرزا نے تیور بدل کر لقمہ بدل دیا۔
’’ہم کو آپ کی رفاقت پر بھروسہ ہے لیکن تخت و تاج کی لڑائیوں کی جو تاریخ ہمارے سمانے ہے وہ دل کو بے قرار رکھتی ہے۔‘‘
دارا نے یہ کہہ کر مسند سے پشت لگالی اور پیچوان کی مہنال اُٹھالی۔
دوہرے بدن اور اونچے قد کا مہاراجہ مرزا کھڑا ہوگیا۔ داہنا ہاتھ چھاگل اور بایاں ہاتھ گلوار کے جڑاؤ قبضے پر رکھ کر گرجا۔
’’ماتا کی پوترتاکی سوگند بچن دیتا ہوں کہ شاہ بلند اقبال کے حکم پر اپنی اور اپنی آل اولاد کی جان نچھاور کردوں گا۔‘‘
پھر خان کلاں اٹھا۔ صحیفہ آسمانی پر ہاتھ رکھا اور قسم کھائی۔
تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 23 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’صاحب عالم کے حکم کی حرمت پر اپنی جان قربان کردوں گا۔‘‘
آخر میں امیر الامراء نواب خلیل اللہ خاں نے قول دینے کی رسم ادا کی۔ سب مستقبل کے اندیشوں میں گلے گلے تک ڈوبے بیٹھے تھے۔ کسی کو زبان کھولنے کا یارانہ تھا کہ آواز بلند ہوئی۔
’’امیر الامراء!‘‘
’’صاحب عالم!‘‘
’’آپ خاں کلاں کے ساتھ جائیے اور وزیراعظم کو اپنے ہمراہ لائیے۔‘‘
امیر الامراء کے باہر نکلتے ہی دارا نے راجہ مرزا کو مخاطب کیا۔
’’آپ کا امیر الامراء کے متعلق کیا خیال ہے؟‘‘
راجہ مرزا نے ابروسمیٹ کر تامل کیا۔ پھر وہ مشہور جواب دیا جو مختلف تاریخوں کے مختلف زمانوں میں اکثر دہرایا گیا ہے۔
’’امیر الامراء کا دل آپ کے ساتھ ہے اور تلوار اورنگزیب کے ساتھ۔‘‘
دارا مسند پر کہنیاں ٹیکے بیٹھا رہا اور آہستہ آہستہ سرہلاتا رہا۔
’’اور وزیراعظم؟‘‘
’’وزیراعظم سپاہی ہے۔ تلوار کی طرح زبان کا بھی دھنی ہے۔ جو کہے گا وہ کر گزرے گا۔‘‘
دارا سوچتا رہا۔ پھر چوبدار نے گزارش کی۔
’’رائے رایاں رگھوناتھ رائے در دولت پر حاضر ہیں۔‘‘
’’باریاب ہوں۔‘‘
رائے رایاں، امیر الامراء اور خان کلاں کے ساتھ ننگے پاؤں داخل ہوا۔ نگاہ اُٹھتے ہی کورنش ادا کی اور حکم پاکر تخت کے سامنے دونوں زانوں جوڑ کر بیٹھ گیا۔
’’وزیراعظم کی یہ ناوقت خلجی ہم کو پسند نہ تھی لیکن۔‘‘
’’غلام حکم کا تابعدار ہے صاحب عالم‘‘
’’اطلاع ملی ہے کہ امیر علی عادل کی سرکوبی مکمل ہوچکی ہے۔ اس لئے خان دوراں نجابت خاں، راجہ بکر ماجیت، منعم خاں اور رانا درگا سنگھ کو فرمان بھیجے جائیں کہ اپنے اپنے لشکروں کے ساتھ دارالحکومت میں حاضر ہوں۔‘‘
’’جو حکم!‘‘
رائے رایاں نے ہاتھ جوڑ کر حکم کی تعمیل کا اقرار کیا۔
’’شہرپناہ کے دروازوں پر پہرہ سخت کردیا جائے۔ روشناسوں کوباہر نکلنے کی اجازت نہ دی جائے۔ اورنگزیب کے وکیل نواب عیسیٰ بیگ پر نظر رکھی جائے۔‘‘
پھر وزیراعظم کے ساتھ دوسرے حاضرین دربار کو بھی رخصت کردیا۔
***
نواب عیسیٰ بیگ کی ڈیوڑھی پر بادشاہی سپاہی پانچوں ہتھیار لگائے کھڑے تھے۔ اندر جانے والوں کو روک رہے تھے اور باہر آنے والوں کی تلاش لے رہے تھے۔ دوپہر کا گجر بجتے ہٹو بچو کا شور ہوا۔ شہزادی روشن آرا کا داروغہ خواجہ سرا نیلم بھاری لباس پہنے چاندی کا وہ عصا تھامے جس کے سپر ہونے عقاب بنا تھا، سامنے آیا۔ اس کے پیچھے حبشی غلاموں کی قطار سروں پر خوان اٹھائے تھی۔ ایک سپاہی نے ٹوکا۔
’’شاہی حکم ہے، کوئی ا ندر نہیں جاسکتا۔‘‘
نیلم نے تنک کر سپاہی کو دیکھا۔ ایک جھوٹی ٹھنڈی سانس بھری اور مٹک کر بولا۔
’’ارے واہ طرم خاں، ہماری ہی بلی اور ہم سے میاؤں، شاہی حکم، سواروں پیادوں کے لئے ہے کہ ’’قورمے‘‘ کی قابو پر بھی پہرے بیٹھ گئے ہیں۔‘‘
پھر اس نے اپنے غلاموں کو بھی حکم دیا۔
’’رکھ دو زمین پر خوا ان چاہے کتے بھنبھوڑیں، چاہے بلی کھائیں، ہماری بلا سے۔ کوئی ہمارے پوت کی کمائی ہے کہ رونے بیٹھیں۔‘‘
سپاہیوں کا افسر سیدھا سادا راجپوت تھا۔ کھڑا ہتھیلی پر تمباکو مل رہا تھا۔ چٹکی منہ میں داب کر گرچا۔
’’ارے کھان صاحب لے جاؤ تم اپنے کھوان، یہ تو ٹھٹھول کررہا تھا۔‘‘
نیلم نے سنی ان سنی کرکے اسی سپاہی کو نشانہ بنایا۔
’’آدمیوں کو گن لو اور چاہو تو تصویریں اتارلو۔ جب لوٹیں تو ملا لینا اور ہاں، قابیں کھول کر دیکھ لو، کہیں ہاتھی، گھوڑے، توپیں، زنبوریں نہ بند ہوں۔‘‘
سپاہی مسکراتے رہے اور نیلم کے ساتھ تمام خوان اندر چلے گئے۔(جاری ہے )
تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 25 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں