تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 23
بادشاہ بیگم کے سامنے مضمحل اور افسردہ داراشکوہ بیٹھا تھا۔ جہاں آرا نے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ دیا۔
’’ہمار ااب بھی یہی مشورہ ہے کہ اٹھو، تاج پہن کر تخت طاؤس پر جلوس کرو۔ منصب داروں کی نذریں قبول کرو۔ خلعتیں عطا کرو اور سلطنت کو پارہ پارہ ہونے سے بچالو۔‘‘
’’تخت و تاج کی قسم ہمارا دل کہتا ہے کہ ظل سبحانی صحت یاب ہوں گے اور جب یہ سماعت فرمائیں گے ان کی اس اولاد نے جس کو انہوں نے سب سے زیادہ چاہا، بے پناہ نعمتوں سے نوازا، اس اولاد نے ان کی علالت سے ناجائز فائدہ اٹھا کر تاج پہن لیا تو ان کے دل پر جو شفقت و رحمت کا دریا ہے، کیا کچھ گزرجائے گی۔ میری اس حرکت کا یہ نتیجہ تو نہ ہوگا بادشاہ بیگم کہ باپ اپنے بیٹوں سے محبت کرنا چھوڑدیں۔‘‘
’’ہم تم کو یقین دلاتے ہیں کہ جب ظل سبحانی انشاء اللہ صحت یاب ہوں گے اور ’’جشن مہتاب‘‘ برپا ہوگا تو ہم ان کے حضور میں سیاست کے اسرار و رموز پیش کریں گے اور تمہارے لئے معافی نامہ ہی نہیں مزید شفقت و محبت مانگ لیں گے۔‘‘
تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 22 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’لیکن بادشاہ بیگم۔۔۔‘‘
’’چوالیس برس کی اس طویل زندگی میں ایسا نہیں ہوا کہ جہاں آرا نے ظل سبحانی سے کچھ مانگا ہو اور عطا نہ ہوا ہو۔ ہمارے تقرب شاہی اور شہنشاہ کی رحمت بے پایاں پر بھروسہ کرو۔ تلوار پر گرفت مضبوط کرو اور وقت کے حکم کی تعمیل کرو۔‘‘
’’داراشکوہ تخت طاؤس کی حفاظت کے لئے اپنی جان دے سکت اہے لیکن ظل سبحانی کی زندگی میں اس کی حرکت کو اپنے قدموں سے برباد نہیں کرسکتا۔‘‘
’’اس کا انجام جانتے ہو دارا؟‘‘
’’اس کا انجام یہ ہوگا کہ اس عظیم الشان سلطنت کے امیر وزیر جو تخت وتاج کی غلامی کو عبادت جانتے ہیں، تخت و تاج کے اوجھل ہوتے ہی اس قدس اور زریں طوق کو گردن سے اتا رکر رکھ دیں گے اور شاہزادہ سوم کے دام میں گرفتا رہوجائیں گے اور خدانخواستہ خام بدہن مغل تاریخ دوسرے اکبر اعظم سے محروم ہوجائے گی۔ یہ سچ ہے کہ ہم نے ایک عورت کا دماغ پایا ہے لیکن اس دماغ کی تربیت ہندوستان ہی کے نہیں، دنیا کے تین عظیم المرتبت شہنشاہوں نے کی ہے۔ ہماری سیاسی بصیرت، جو کچھ ہونے والا ہے اس کو اس طرح دیکھ رہی ہے جس طرح ان جھاڑوں کی روشنی میں تم ہم کو دیکھ رہے ہو۔‘‘
’’ہم اسی بارہ خاص میں آپ کا مشورہ چاہتے ہیں۔‘‘
’’تو سنو! مراد بھولا ہے اس لئے اندیشہ ہے کہ اورنگزیب کا شکارہوجائے۔ شجاع عیاش اور جاہ طلب ہے اس لئے امکان ہے کہ مفسدوں کی کارستانی اور نشے کی ترنگ کام کرجائے اور خود اورنگزیب اس دکن کا تقریباً فرمانبردار ہے جو کئی سلطنتوں پر مشتمل ہے اور اس کا رکاب میں وہ آزمودہ کار لشکر اور بھاری توپ خانہ ہے جو تمام رکن کی گوشمالی کے لئے روانہ کیا گیا تھا۔‘‘
’’یعنی اورنگزیب کا زہریلا دانت شاہی لشکر ہے جو واپس بلایا جاسکتا ہے اور اس کو بے ضرر بنایا جاسکتا ہے۔‘‘
’’ہاں، لیکن وہ اس زہریلے دانت کے لئے اپنی جان تک کی بازی لگادے گا۔‘‘
’’رہا دارالخلافہ تو خدا کرے میرا خیال باطل ہو۔ میرا خیال ہے کہ ولایتی امیروں پر تم سے زیادہ اورنگ زیب کا اثر ہے۔ راجپوتوں پر تم حاوی ہو۔ بڑی تعداد ایسے امیروں کی ہے جو ترازو کے جس پلڑے کو جھکتا پائیں گے، اسی پر بیٹھ جائیں گے۔ تاہم اگر تم تاج پہن لو تو امیروں کی بڑی تعداد ولی عہد سلطنت اور مہین پور خلافت کی رکاب میں تلوار چلانے کو سیاسی عبادت خیال کرے گی۔‘‘
دیر تک سکوت رہا۔ پھر دارا نے پہلو بدلا۔ بادشاہ بیگم کھڑی ہوگئیں۔ داراکورنش کے لئے جھکا تو دعا دی۔
’’خدا تمہیں اورنگزیب کے فساد سے محفوظ رکھے۔‘‘
دارا اپنے محل میں داخل ہوا تو خواجہ سرا فہیم نے عرض کیا۔
’’امراء دست بوسی کو حاضر ہیں۔‘‘
وہ انہیں قدموں دیوان خانہ حکومت پہنچا۔ امیر الامراء نواب خلیل اللہ خان، خان کلاں معظم خاں، مہاراجہ مرزا جے سنگھ نے کورنش ادا کی۔ وہ تخت پر دوزانوں بیٹھ گیا۔ مہاراجہ داہنے ہاتھ پر امیر الامراء اور خان کلاں بائیں ہاتھ پر مودب بیٹھ گئے۔ معتبر خواجہ سرا اپنی اپنی جگہوں پر دست بستہ کھڑے تھے۔ دارا کے ہاتھ جنبش پر خواجہ سرا فہیم تخت کے سامنے رکوع میں کھڑا ہوگیا۔
’’قرآن پاک اور گنگا جل۔‘‘
حاضرین نے گوشہ چشم سے دیکھا۔ ایک خواجہ سرا نے چاندی کی چوکی تخت کے پہلو میں لگادی۔ فہیم نے قرآن پاک کے پاس گنگا جل کی سنہری چھاگل رکھ دی۔ دارا نے ہاتھ کا اشارہ کیا۔ خواجہ سرا باہر چلے گئے۔ دارا نے ایک ایک چہرے کو غور سے دیکھا۔ دھیمی اور اٹل آواز میں بولا۔
’’سلطنت کو اگر ایوان مان لیا جائے تو امراء اس کے ستون ہوتے ہیں۔ خیر خواہ امیروں سے حکومت کے راز چھپانا آئین سیاست کے خلاف سمجھا گیا ہے۔ اسی لئے وقت خاص میں آپ کو طلب کیا گیا ہے۔ جہاں پناہ کی علالت خطرناک صورت اختیار کرچکی ہے۔ مصلحت کا تقاضا ہے کہ رعایا سے اس خبر کو محفوظ رکھا جائے۔ اس لئے محفوظ رکھی گئی لیکن چپے چپے پر اورنگزیب کے جاسوس لگے ہوئے ہیں۔ اس لئے ہم نے مناسب خیال فرمایاکہ قبل اس کے کوئی فتنہ سراُٹھائے، اس کے سدباب کا انتظام کردیا جائے۔ دنیا جانتی ہے کہ ظل سبحانی نے ہم کو ولی عہد مقرر فرمایا۔ اعزازات و مناصب میں دوسرے بھائیوں پر فضیلت عطا کی۔ اس لئے ہم پر یہ قانونی فرض عائد ہوتاہے کہ جب تک ظل اللہ صحتیاب نہیں ہوتے ہم امور جہاں بانی کو اپنے ہاتھوں میں لے لیں اور جب خدا شہنشاہ کو تخت طاؤس پر بیٹھنا نصیب کرے تو ہم یہ امانت ان کے مبارک قدموں میں رکھ دیں۔ صورت حال یہ ہے کہ اورنگزیب دکن کی فتوحات پر متعین قہار لشکر اور تباہ کن توپ خانے کا مالک ہے۔ بڑے بڑے سردار اس کی رکاب میں ہیں اور سلطنت کا سودا اس کے سر میں۔ ظل سبحانی کی علالت نے اسے شیر کردیا اور اس نے باغیانہ دارالحکومت کی طرف حرکت کی تو۔۔۔‘‘
’’دربار کے سوربیروں کی تلواریں موت بن کر راستہ روک دیں گی۔‘‘
مہاراجہ مرزا نے تیور بدل کر لقمہ بدل دیا۔(جاری ہے )
تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 24 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں