تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 22
سرمد نے زانوں سے ایک ہاتھ اٹھا کر اسے دے دیا۔ دارا نے بوسہ دیا اور آنکھوں سے لگایا اور گھٹنے توڑ کر مریدوں کے حلقے میں بیٹھ گیا۔ ایک چوبدار نے اشرفیوں سے بھرا ہوا تھال دارا کو پیش کیا۔ دارا نے کھڑے ہوکر وہ تھال سرمد کے سامنے رکھ دیا۔ سرمد نے اچنٹی نگاہ ڈالی اور خادم کو اشارہ کرکے جلدی جلدی کہا۔
’’بانٹو، بانٹو، ابھی بانٹو، غریبوں میں بانٹو۔‘‘
خادم وہ تھال لے کر باہر نکلا اور ادھر اُدھر سے سمٹ آنے والے فقیر اشرفیاں لوٹنے لگے۔ پوری محفل دیر تک سکوت کے عالم میں بیٹھی رہی۔
پھر دارا اُٹھ کھڑا ہوا۔ سینے پر ہاتھ باندھے اور عرض کیا۔
’’میرے لئے دعا فرمائیے۔‘‘
تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 21 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
سرمد اسی طرح ساکت بیٹھے رہے۔ دارا کھڑا رہا۔ پھر سرمد نے اسے دیکھا اور دھمی آواز میں فرمایا۔
’’بادشاہ فقیروں کی دعاؤں سے بے نیاز ہوتے ہیں۔‘‘
مریدوں کے ابرواچک کر پیشانیوں تک لچے گئے۔ آنکھیں کانوں تک پھیل گئیں۔ دارا کا ہاتھی ابھی لاہوری دروازے سے دور تھا لیکن وہ چوک جس کے طول و عرض میں چودھریں کے چاند کا سفر قید کرلیا گیا تھا، داراشکوہ کی شہنشاہی کی بشارت سے گونجنے لگا۔
’’فتح پوری مسجد کے داہنے ہاتھ پر لب سڑک سنگ سرخ کی ڈیوڑھی کے چوڑے چکلے سفید اونٹوں پر دربان اونگھ رہے تھے۔ دوشاخوں کی روشنی میں ان کے ہتھیار سورہے تھے۔ تانبے کے بدقلعی لمبے لمبے گلاسوں سے بھنگ کی بو اُٹھ رہی تھی۔ کھردرے سرخ فرش پر پڑے ہوئے مٹھائی کے دونے کو ایک کتا سونگھ رہا تھا۔ ڈیوڑھی کے اندرونی حصے میں مروونگ روشن تھے۔ کھردرے بھورے صحن کے پار اونچے چبوترے کی سیڑھیوں کے پاس مسلح خواجہ سراؤں کا جھرمٹ کھڑا تھا۔ دوہرے دالان کے اگلے درجے کی محرابوں میں ہلکے ریشمی پردوں سے اندر کی تیز روشنیاں چھن چھن کر آرہی تھیں۔ اندرونی درجے میں پردوں کے پیچھے سرغ گول قالین پر بھاری جھاڑ کے ٹھیک نیچے طناز مجرا کررہی تھی۔ اس کے سامنے دالان کے داہنے بازو پر نیچے نیچے پانچ دروں کا اونچا دالان تھا جس کے بھڑکیلے پدے بندھے تھے۔ بیچ کے در میں اورنگزیب کا درباری وکیل نواب عیسیٰ بیگ مسند سے لگا بیٹھا تھا۔ اس کے سفید اطلسیں جامے پر طلائی کمر پٹکے میں جڑاؤ خنجر لگا تھا۔ ترشی ہوئی لبوں اور گول خشخشی داڑھی سے نجابت و نفاست ٹپک رہی تھی۔ سیاہ پٹے ایک کان سے دوسرے کان تک نیم دائرہ بنائے ہوئے تھے۔ اس کے سامنے سنگ زرد کی چھوٹی سی چوکی پر کاغذات ڈھیر تھے۔ پشت پر دو کم سن خواجہ سرا حکم کے منتظر کھڑے تھے۔ طناز کے پیچھے سازندے اپنے ساز بجارہے تھے اور کندھے اُچک رہے تھے۔ گردنیں ٹھمک رہی تھیں اور طناز ناچ رہی تھی۔ بھاری گھیر دار پشواز میں اس کا کندنی نازک جسم بل کھارہا تھا۔ سفید گول، سبک ٹیکنوں پر کسے ہوئے دوپہلے گھنگھرو چھنک رہے تھے۔
ایک خواجہ سرا نے حاضر ہوکر نواب کے کان میں کچھ کہا۔چونک کر گردن اٹھائی۔ داہنے ہاتھ کو سیدھا کیا۔ طناز اپنے سازندوں کے ساتھ پردہ اٹھاکرباہر چلی گئی۔ پھر ایک پستہ قد منخی سا آدمی اندر آیا۔ سلام کے جواب میں اجازت پاکر بیٹھ گیا۔ اشارہ پاکر آنے والے نے آہستہ سے گلا صاف کیا اوربولنے لگا
’’ظل سبحانی کی علالت مایوسی کی حد تک پہنچ چکی ہے۔ ولی عہد نے سلطنت کو غصب کرلینے کا منصوبہ بنالیا۔ خان کلاں(صنعم خاں) مہاراجہ (جسونت سنگھ) اور مرزا (جے سنگھ) بڑے بڑے لشکروں کے ساتھ دارالحکومت میں داخل ہونے والے ہیں۔ حکیم احسن اور حکیم راحت نظر بند کردئیے گئے ہیں تاکہ شہنشاہ کی بگڑی ہوئی حالت کو چھپایا جاسکے۔‘‘
وہ چپ ہوگیا۔ نواب عیسیٰ بیگ نے زانوں پر رکھی ہوئی پیچوان کو اٹھا کر قالین پر پھینک دی اور خواجہ سرا کی طرف دیکھے بغیر حکم دیا۔
’’کاتب کو طلب کرو۔ ہر کاروں کو تیار ہونے کا حکم دو۔‘‘
آدھی رات کی توپ چل چکی تھی۔ چاند اپنے ’’نشیمن‘‘ میں ظل سبحانی کی طرح سیاہ بادلوں کے الوان اوڑھے پڑا تھا۔ سارے ان گنت منصب داروں کی طرح زرکار لباس پہنے مغل اقبال پر چھائی ہوئی بھاری رات کے ڈھلنے کا انتظار کررہے تھے۔
ظل سبحانی کی مسلسل خدمت اور شب بیداریوں سے چور جہاں آرا اپنے دولت خانہ خاص میں طلائی کرسی پر بیٹھی تھی۔ سوچتے سوچتے پیشانی پر لکیریں جم گئی تھیں۔ سرخ ہونٹوں کے دونوں طرف سرمائی اعراب گہرے ہوگئے تھے۔ جاگتے جاگتے آنکھوں میں کٹے ہوئے موتیوں کی آب دھندلا گئی تھی۔ دولت خانے کی لمبی چوڑی بلند مسطح کرسی کے نیچے چاروں طرف وفادار خواجہ سراؤں کی تلوارین پہرہ دے رہی تھیں۔(جاری ہے )
تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 23 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں