تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 21
قندھار کو اورنگزیب بھی چھین نہ سکا تھا لیکن اورنگزیب کی قندھار سے واپسی شاہ جہاں آباد کو یاد تھی۔ طبل بجاتے ہوئے اونٹوں کی قطاروں کے پیچھے نشان کے ہاتھی جن پر اورنگزیب کے علم لہرارہے تھے۔ اوزبک شجاعوں کے پرے ہتھے جوشیروں اور چیتوں کی کھال کے سینہ بند پہنے کمر بندوں میں بھاری بھاری نگی تلواریں لٹکائے بہاﺅ ایسے گھوڑوں پر سوار چل ر ہے تھے جن کے پیچھے کھلے ہوئے چھکڑوں پر سینکڑوں ایرانی، المانی اور بدخشانی کنیزوں کے جھرمٹ تھے۔ جن کے چہروں سے ستارے روشنی اور پھول تازگی مانگتے تھے۔ ان کے ساتھ ماہر فن صناح اور فنکار غلاموں کا اژدھام تھا۔ پھر سپہ سالاروں کی سواریاں تھیں جن کے ناموں کی ہیبت قلعوں اور شہروں کو سرسواری فتح کرلیا کرلی تھی۔ ان کے پیچھے بلخ و بخارا غزنیں اور سمرقند کے باغی تھے جو لمبی عبائیں پہنے اور بھاری عمامے باندھے تھے۔ ان کے ہاتھ پشت پر چاندی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے اور جو گرفتار شیروں کی طرح جھوم جھوم کر چل رہے تھے۔
مذہب عماری پر فولاد کا لباس پہنے خود میں سیاہ عقاب کا پر لگائے متانت و شجاعت کا لبادہ اوڑھے مرصع چھتر لگائے بیٹھا تھا۔ ہاتھی کے چاروں طرف وہ نامی گرامی امراءپروانوں کی طرح اُڑرہے تھے جو اپنی زندگی میں افسانہ بن گئے تھے۔ پشت پر چھینے ہوئے جھنڈوں، گھوڑوں، اونٹوں، ہاتھیوں اور توپوں اور خزانوں کا سلسلہ چلا آرہاتھا۔ اس شان و شکوہ، ہیبت و سطوت نے رعایا کے دل سے یہ بات نوچ کر پھینک دی تھی کہ شاہزادہ قندھار سے ناکام واپس ہوا ہے۔
تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 20
وہ سپاہی جو دارا کی رکاب میں لڑے تھے، دکانوں، مکانوں اور خانقاہوں میں پہنچے۔ ان سے قندھار کے گرم موضوع پر گفتگو ہوئی۔ انہوں نے جو شکست کے چشم دید گواہ تھے، اپنا دامن بچانے کے لئے ایرانی توپ خانے کی آتش باری کا قصیدہ پڑھایا ، اشارہ دیا کہ دشمن کا خفیہ نگام اتنا بہتر تھا کہ ان کا ایک آدمی شاہی توپ خانے کا تمام ساز و سامان برباد کرکے چلا گیا۔
ان دونوں باتوں کا عوام پر الٹا اثر ہوا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ کس طرح شاہزادے نے جاتے ہی قندھار کے تین طرف پھیلے ہوئے سارے قلعوں کو فتح کرلیا تھا اور کس کس جتن سے قندھار پر جان لیوا دھاوے کئے تھے لیکن اس پر کسی نے توجہ نہ دی۔ اس بات کو وہ شاہی اشتہار بازی سے زیادہ اہمیت نہ دیتے تھے اور یقین کئے بیٹھے تھے کہ دارا قندھار کے کسی قلعے کی ایک اینٹ تک حاصل نہ کرسکا تھا۔ ثبوت صاف تھا اور موجود تھا۔ یعنی نہ لونڈی نہ غلام، نہ جھنڈے نہ علم، نہ توپ نہ تلوار، نہ اشرفی نہ روپیہ، دارا چند ہزار سپاہیوں کے ساتھ خالی ہاتھ واپس آیا تھا۔
مگر معاملہ یہیں تک رہتا تو بھی غنیمت تھا لیکن یہاں تک مشہور کیا گیا کہ مرزا راجہ جے سنگھ اور خان کلاں معظم خاں جیسے جلیل الشلان سپہ سالار اپنی پوری فوجوں کے ساتھ کاٹ کر پھینک دئیے گئے۔ مہابت خاں، ہندوستان کا سب سے بڑا اور بوڑھا سپاہی شہزادے سے ناخوش ہوکر کابل چلا گیا اور جب اس شکست فا ش کی خبریں شہنشاہ کو ملیں تو برہم ہوکر شاہزادے کو واپسی کا حکم دیا اور اب شاہزادہ معتوب ہے، مجرا موقوف ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس غم نے ظل سبحانی کو پردہ پوش کردیا۔ درشن جھروکہ تک میں بیٹھنا ترک کردیا۔ کسی کو بازیاب ہونے کی اجازت تک عطا نہیں ہوتی۔ یہ آخری دلیل سب سے مضبوط تھی۔
٭٭٭
سعد اللہ خاں وزیراعظم انتقال کرگیا اور شہنشاہ نے رائے رایاں رگھوناتھ راﺅ کو وزارت عظمیٰ کا قلم دان سونپ دیا۔ میدان جنگ میں ہاتھ پر چڑھ کر فوجیں لڑانا اور سعداللہ خاں کی مسند پر بیٹھ کر شاہ جہاں جیسے نازک مزاج اور بوڑھے شہنشاہ کے سائے میں حکومت کرنا دو مختلف کام تھے۔ رائے رایاں ظل سبحان کا تقریب نہ حاصل کرسکا۔ بیمار شہنشاہ کو سیاست کے نشیب و فراز سمجھا کر رعایا کے قریب نہ رکھ سکا۔ درشن جھروکہ خالی اور تخت طاﺅس ننگا پڑا رہا۔
شاہ جہانی مسجد کی پشت پر لکڑی کے ستون پھوس کی گول چھت اٹھائے کھڑے تھے۔ فرش پر جو طے کی چٹائی بچھی تھی، لکڑی کے اونچے اونچے ڈیوٹوں پر کڑوے تیل کے چومکھے چراغ جل رہے تھے۔ ان کی ہلکی پیلی روشنی میں سرمد بے نیاز دوزانوں بیٹھے تھے۔ اجڑی ہوئی چوڑی چکلی داڑھی لمبے سینے پر چھائی ہوئی تھی۔ دور دور بیٹھے ہوئے ابروﺅں کے نیچے علم و عرفان کی آگ دبکتی ہوئی آنکھیں روشن تھیں۔ سامنے عقیدت مندوں کا حلقہ زرد کفنیاں پہنے مﺅدب بیٹھا تھا کہ سامنے سڑک پر شور ہوا ۔ سرمد اسی طرح جذب کے عالم میں بیٹھے خلاءمیں گھورتے رہے لیکن جواں سال مریدوں نے گردنیں موڑ موڑ کر دیکھا۔ داراشکوہ ہاتھی سے اترچکا تھا اور چوبداروں اور خاص برادروں کے جلو میں چھوٹے چھوٹے پر احترام قدم رکھتا آرہا تھا۔ داخل ہونے سے پہلے اس نے جھک کر سلام کیا۔ مریدوں کے حلقے نے ٹوٹ کراس کے لئے جگہ بنائی۔ وہ سینہ تک سرجھکائے آگے بڑھا اور دست بوسی کے لئے اپنے دونوں ہاتھ بڑھادئیے۔(جاری ہے)
تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 22 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں