طاقت اور دولت کبھی بوڑھے نہیں ہوتے،یادیں ہر شخص کے ماضی کا عظیم سرمایہ ہوتی ہیں، ماضی سے یوں جڑی ہوتی ہیں جیسے مقناطیس سے میخیں
مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:2
آپ بیتی بڑے لوگ لکھتے، لکھواتے ہیں یا ان کی سوانح عمری لکھی جاتی ہیں۔ یہ ایک عام شخص کی کہانی ہے۔ یو نہی ایک روز خیال آیا میں بھی گزرے کل کو یاد کرکے صفحات پر منتقل کرتا ہوں۔ لکھنے بیٹھا تو بہت کچھ یاد آ گیا۔ وہ بھی جو دماغ کے خانوں میں کہیں جم چکاتھا۔ کبھی ان باتوں کو یاد کرکے ہنسی نکل جاتی اور کبھی لگتا کیسی کیسی حماقتیں سرزد ہوتی رہی تھیں۔ کہیں سچ کے کڑوے گھونٹ نگلنے پڑے تھے۔سوچا ان یادداشتوں کا نام ”کچھ حماقتیں کچھ صداقتیں“ رکھتے ہیں۔ آپ جو کچھ بھی پڑھیں گے سچ ہو گا۔ میں نے کوشش کی ہے جو کچھ لوگوں اور تجربے سے سیکھا نئی نسل کو منتقل کرکے اپنے فرض کا قرض ادا کروں۔ شاید یہ سطور کسی کی زندگی بہتر بنانے میں معاون ہو سکیں۔
میں ان تمام لوگوں کا ممنون ہوں جنہوں نے ان حماقتوں اور صداقتوں کو مرتب کرنے میں میری مدد کی ہے۔ کچھ واقعات، کچھ صداقتوں اور کچھ حماقتوں کی توثیق کی ہے۔ کہیں کچھ یاد دلایا ہے اور کہیں کسی بات کی درستگی کی ہے۔ میں ہمیشہ اس بات کا قائل رہا ہوں کہ کچھ یار کچھ دنوں کے بعد یار نہیں رہتے عادت بن جاتے ہیں۔سچ تویہ ہے کہ طاقت اور دولت کبھی بوڑھے نہیں ہوتے ہیں۔
واہ! یادیں بھی ہر شخص کے ماضی کا عظیم سرمایہ ہوتی ہیں۔ یہ ماضی سے یوں جڑی ہوتی ہیں جیسے مقناطیس سے میخیں۔ جہاں گھماؤ گھوم جاتی ہیں۔ کمال اتفاق ہے انسان ماضی ہی کو یاد کرتا ہے اور بڑھاپے میں ماضی کے سہارے زندگی کے باقی دن گزارتا ہے۔ ماضی کبھی کبھار اس شدت سے یاد آ تا ہے کہ انسان خود بھی حیران رہ جاتا ہے اور ان میں ایسا ڈوبتا ہے کہ کوئی یار ہی پار لگاتا ہے۔ پرانے یار وں کی محفلیں بڑھاپے میں مرجھائے چہروں پر خوشی کے ایسے رنگ بکھیرتی ہیں کہ ساری اداسی، ساری تھکن، ساری پر یشانی ایسے غائب ہوتی ہے جیسے کبھی ان سے واسطہ ہی نہ تھا۔ ان یادوں میں دنیا سے رخصت ہوئے دوست آ نکھوں میں آنسوؤں کی جھڑی اتار جاتے ہیں۔ یادیں رلادیتی بھی ہیں۔ ہنساتی بھی ہیں اور ماضی کی فلم دماغ کے زنگ آ لود خانوں سے نکال کر یوں دکھاتی ہیں جیسے ابھی ابھی فلمائی گئی ہوں۔
یہ چار نسلوں کی کہانی میرے دادا سے شروع ہو کر میرے والد سے ہوتی مجھ تک پہنچی ہے۔ عمر کے چونسٹھویں سال میں میں اگلی نسل یعنی اپنے بیٹوں عمر اور احمد کو منتقل کر رہا ہوں بلکہ اب پانچویں نسل یعنی احمد کی بیٹی اورمیری پوتی امیرہ احمد بھی ماشا اللہ ایک سال کی ہونے لگی ہے۔یہ معصوم سی جان اپنی ننھی ننھی معصوم شرارتوں، پرائس لیس ہنسی، چمکتے موتیوں جیسے چھوٹے چھوٹے دانتوں اور”ہوں ہوں“ کرتی اپنی ساری باتیں منوانے کا فن جا نتی ہے۔ یہ جانتی ہے کسے دانت دکھا نے ہیں کسے دیکھ کر مسکرانا ہے، کسے دیکھ کر شرمانا ہے، کسے دیکھ کر ہوں ہوں کرنی ہے اور کسے دیکھ کر روں روں کرنی ہے۔ نئے دور کے جدید بچے۔ یہ جا گتی آنکھوں سے دنیا میں آتے ہیں اور بند آنکھوں سے بھی سب کچھ دیکھ لیتے ہیں۔
کل میری گود میں عمر اور احمد ہوتے تھے۔ آج احمد کی بیٹی ”امیرہ احمد“ ہے۔اس سفر کے درمیان تنتیس(33)برس کا طویل فاصلہ ہے۔ اللہ اسے دنیا بھر کی خوشیوں سے نوازے، صحت والی لمبی عمر دے۔آمین۔ ماں باپ، تایا اور دادا دادی کا نام روشن کرے آمین۔وقت تیزی سے مگراچھا گزرا۔ اللہ عمر اور احمد کو بھی دین اوردنیا کی خوشیاں عطا کرے،ان پر اپنی رحمتیں اور برکتیں نازل کرے اور انہیں اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ آمین۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔