”سیاسی سموگ“لاشیں مل گئیں۔۔۔ تمام کارڈ کس کے ہاتھ میں تھے۔۔؟
موجودہ حالات کے مطابق شعر کا مصرعہ یہ ہونا چاہیے
مفلسی ”حسِ سیاست“ کو مٹا دیتی ہے
بھوک آداب کے سانچوں میں ڈھل نہیں سکتی
”بھوک“ اختیار، اقتدار کی بھی ہوتی ہے اور ان کا بھی آداب سے کوئی تعلق نہیں۔۔۔قریبی تو بالکل نہیں،دور پار کا شاید ہو۔۔
اور ڈی چوک پر ”بھوک“بھی تھی۔۔جو قیامت کی نظر رکھتے ہیں انہیں دکھائی دی لیکن نہ مری نہ زخمی ہوئی۔
ڈی چوک پر سردی بھی تھی۔۔۔لیکن دھرتی ماں کو”سیاسی سموگ“ نے لپیٹ میں لے لیا۔۔۔
”ماہرین“ کا دھیان کسی اور طرف ہے۔۔۔
دھواں سرحد پار سے نہیں اندر سے اٹھ رہا ہے۔۔۔
دم گھٹ رہا ہے۔۔۔سانس لینا بھی محال ہے۔۔۔
بھارت کو سموگ سے سالانہ 95ارب ڈالر کے نقصان کا سامنا اور لاکھوں افراد کی جان کو خطرہ ہے جبکہ ہمیں ”سیاسی سموگ“ یعنی احتجاجی مظاہروں،دھرنوں اور لاک ڈاؤن سے روزانہ کی بنیاد پر 200ارب روپے سے زائد کے نقصان ہو گیا۔ جی ڈی پی کی مد میں 144ارب، برآمدات 16ارب اور ٹیکس ریونیو کی مد میں 26ارب کا نقصان، چار پانچ دن راستے بند،سامان کی ترسیل بند، منڈیاں بند، صنعتیں بند،کاروبار بند، تاجروں کا کروڑوں کا نقصان۔۔کروڑوں زندگیوں کو خطرات لاحق ہیں۔۔۔۔ پھر بھی ”آوے ای آوے جاوے ای جاوے“کا ورد ہے۔
24نومبر آ ئی اور چلی گئی۔۔۔عوام کی حفاظت ہو نہ ہو، ڈی چوک کی حفاظت ہو گئی۔۔۔لاشیں بھی مل گئیں۔۔۔زخمی بھی مل گئے۔۔۔کسی کو فتح مل گئی۔۔۔کسی کو ہارمیں بھی جیت کا مزہ۔۔۔کسی کو ”جادوگر“ مل گیا تو کسی کو ”پیرنی“۔۔۔کسی کو ”سلطانہ ڈاکو“ کا خطاب مل گیا تو کسی کو ”قصاص“ میں طلب کرنے کی دھمکی۔۔۔ ہرکسی کے ہاتھ کچھ نہ کچھ ضرور لگا۔۔۔کسی کو ٹی وی چینلز پردکھانے کیلئے سی سی ٹی وی فوٹیجز، جلا ہوا کنٹینر،200 گاڑیاں، موٹر سائیکلیں، جوتے چپلیں، کپڑے، 39ہتھیار،954گرفتاریاں، 37 افغان شہری۔۔۔ تو دوسری جانب کسی کو سوشل میڈیا پردکھانے کیلئے آنسو گیس، گولیوں کے خول، کنٹینر سے نیچے دھکا دیتی ویڈیوز اور ناجانے کیا کیا۔۔۔
حبیب جالب نے شاید انہی دنوں کیلئے کہا تھا
محبت گولیوں سے بو رہے ہو
وطن کا چہرہ خوں سے دھو رہے ہو
گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے
یقیں مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو
کئی مر گئے مگر سوال زندہ کر گئے۔۔۔۔
تمام ”کارڈ“ کس کے ہاتھ میں تھے۔۔؟
کون کمزور اور کون طاقتور ثابت ہوا۔۔؟
وہ ”وعدے“ یا”انڈر سٹینڈنگز“ کیا تھیں جن کی بناء پر بعض کو رہائی ملی، ”سیاسی لاؤنچنگ“کا ڈھنڈورا کیوں پیٹا گیا ۔۔۔؟
کیا ”فائنل کال“ کا بپھرا ہواسونامی، اسلام آباد کی دیواروں سے سر پھوڑنے کے بعد ناکام و نامراد واپس لوٹ گیا؟
کیا جھوٹ اور غلط بیانیوں کی فیکٹریاں بند ہو جائیں گی؟
کیا لاشوں اور خونریزیوں کی داستانیں دم توڑجائیں گی؟
کیا واقعی پسپائی ہو گئی۔۔۔؟کیا راوی نے چین لکھ دیا؟
اور کیا اب کوئی لمبے عرصے تک سر نہیں اٹھاپائے گا۔۔۔؟
کیا مسئلے کی بنیاد ختم ہو گئی۔۔۔؟
حبیب جالب نے یہ بھی کہا تھا
کہاں ٹوٹی ہیں زنجیریں ہماری
کہاں بدلی ہیں تقدیریں ہماری
وطن تھا ذہن میں، زنداں نہیں تھا
چمن خوابوں کا یوں ویراں نہیں تھا
مسلط ہے سروں پر رات اب تک
وہی ہے صورت حالات اب تک
خیبر پختونخوا سے جواب آ گیاہے۔۔۔ جانے والے ملک سے باہر نہیں گئے، واپس آنے کیلئے گئے ہیں۔۔۔وہ کہہ رہے ہیں ”تشدد بھی ہم پر ہوں اور مقدمات بھی ہم پر ہوں،ہم بھاگے نہیں، آپ نے جو کرنا تھا کرلیا اب ہماری باری ہے، احتجاج کے باعث کافی مقاصد حاصل کرلیے۔ سیاسی جنگ کو آگے بڑھائیں گے۔ تحریک ایسے ختم نہیں ہوتی کہ تشدد کرکے اٹھالیا، ابھی تو ہم گئے ہی نہیں تحریک جاری ہے، بڑھکیں مارتے تھے کہ کوئی ڈی چوک آکر دکھائے، اتنے زیادہ ناکوں کے بعد بھی پہنچے۔ شہیدوں کے اہلخانہ کو ایک ایک کروڑ روپے دینے کا اعلان، کارکنوں کی شہادت پر ایف آئی آر درج کرائیں گے، کوشش ہوگی ایف آئی آر خیبرپختونخوا میں درج کرائیں، ہمیں علم ہے اسلام آباد میں ہماری ایف آئی آر کوئی درج نہیں کرے گا۔ہم پر براہِ راست گولیاں برسائی گئیں، صوبہ اپنا مینڈیٹ اور اپنا حق لینا جانتا ہے“۔
ایک اہم شخصیت نے کہا کہ ”جوکچھ ہوا اس کی وجہ ووٹ کی چوری ہے، اداروں کو الیکشن سے دور رہنا ہو گا، پاکستان میں اس وقت کوئی حکومت نہیں ہے۔ کوئی سیاسی کارکن جان سے گیا ہے تو وہ بھی ہمارے ملک کا نقصان ہے، قانون نافذ کرنے والے اداروں کا جوان شہید ہوا ہے تو بھی ہمارا نقصان ہے۔ اتنے انتظامات کے باوجود ڈی چوک کیسے پہنچے؟ پاکستان میں اس وقت کوئی حکومت نہیں، بلوچستان میں بھی کوئی حکومت نہیں، ملک میں سنجیدہ حکومتوں کا ہونا ضروری ہے۔ مذاکرات اور بات چیت سے راستے نکل آتے ہیں، کسی صوبے کو احتجاج پر مجبور نہ کیا جائے، سیاسی کارکن کے جذبات مخلصانہ ہوتے ہیں“۔
ایک اور اہم شخصیت نے”ایکس“پر یہاں تک کہہ ڈالا کہ ”مظاہرین پر حملہ اور طاقت کا اندھا دھند استعمال آئین اور جمہوری اقدار پر حملہ ہے۔ سیاسی کارکنان قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں، ملک میں جمہوریت کی قبر کھود کر آمرانہ روش کو مضبوط کیا جا رہا ہے،یہ درآسل ریاست کو کمزور کیا جا رہاہے۔ظلم کرنے والے بھول رہے ہیں کہ کل انہیں بھی اس کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ملک کے آئین اور جمہوری اقدار کے مطابق پرامن احتجاج ہر سیاسی پارٹی اور شہری کا حق ہے، حکومت کو کسی صورت یہ اختیار حاصل نہیں کہ مظاہرین پر چڑھ دوڑے۔ کراچی میئر سے لے کر عام انتخابات تک فارم 47 کی پیداوار نمائندوں کو مسلط کیا گیا اور عوام کے جمہوری حقوق پر ڈاکہ ماراگیا“۔
یہ بھی صحیح کہا گیا کہ ضروری نہیں کہ ہر وقت عوام دھرنے میں ہوں۔۔۔
خدا تمہارا نہیں ہے خدا ہمارا ہے
اسے زمین پہ یہ ظلم کب گوارا ہے
عوام میں غصہ ہے۔۔۔ابھی ختم نہیں ہوا۔۔۔ الیکشن میں ووٹ ڈالنے بھی نکلے اور ”ہر کال“ پر نکل رہے ہیں۔۔۔ سڑکوں پر ڈنڈا،گالی، گولی سب کھا رہے ہیں۔۔۔اب کوئی شکوہ یا طعنہ نہیں دے سکتا کہ باہر نہیں نکلتے اب تک جتنی بھی لاشیں 12ہیں یا اڑھائی سو سے زائد، عام آدمی کی ہی ہیں۔۔۔۔
آج کے دور کا اہم ہتھیار”سوال“ ہے جسے پوچھنے کی آزادی چھینی نہیں جا سکتی اور عوام اس ”ہتھیار“ سے لیس ہیں۔۔۔
”فائنل کال“ بھی ابھی ختم نہیں ہوئی۔۔۔ ٹی ٹوئینٹی یا ون ڈے نہیں ”ٹیسٹ میچ“ کی شکل اختیار کر چکی ہے۔۔
ڈی چوک آنیوالوں کیساتھ ”تھوڑا بہت ہنسی مذاق ہونا چاہیے“ کہنے والے ”سیاسی مفلس“جان لیں آخری حل مکالمہ ہی ہے۔۔۔
فیصلہ تو کرنا ہی ہو گا۔۔۔ملک کو ”جاگیردارانہ جمہوریت“ چاہیے یا اصلی جمہوریت۔۔؟
آخر میں پھرحبیب جالب یاد آ گئے
ایسے الفاظ نہ اوراق لغت میں ہوں گے
جن سے انسان کی توہین کا پہلو نکلے
ایسے افکار بھی زندہ نہ ہوں گے جن سے
چند لوگوں ہی کی تسکین کا پہلو نکلے
میں ضرور آؤں گا ایک عہد حسیں کی صورت
نوٹ" ادارے کا لکھاری کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں