تاریخی کہانیوں کے اوراق الٹتے ہوئے ہم فرعون کے مقبرے کے مرکزی دروازے پر جا پہنچے، دھوپ سے یکدم اندھیرے میں آنے کی وجہ سے کچھ نظر نہ آیا
مصنف: محمد سعید جاوید
قسط:75
پھر بیان کی گئی ان ہی تاریخی کہانیوں کے اوراق الٹتے ہوئے ہم اس فرعون کے مقبرے کے مرکزی دروازے پر جا پہنچے۔ ابھی اتنے سیاح وہاں نہیں پہنچے تھے اس لئے قطار بھی زیادہ لمبی نہیں تھی اور ہم جلدی ہی اس کے اندر داخل ہوگئے۔
شروع میں تو دھوپ سے یکدم اندھیرے میں آنے کی وجہ سے کچھ بھی نظر نہ آیا لیکن آہستہ آہستہ اندر کا ماحول صاف نظر آنے لگا۔راہداری میں جگہ جگہ برقی قمقمے بھی لگے ہوئے تھے اس لئے وہاں مناسب روشنی کا انتظام تھا۔ ایگزاسٹ فین کی وجہ سے تازہ ہوا کی آمدو رفت بھی جا رہی تھی اور کم از کم شروع میں تو کسی قسم کی گھٹن کا احساس نہ ہوا۔
یہاں سے ایک تنگ وتاریک سا راستہ نیچے کی طرف اترتا ہے اور پھرچوبی سیڑھیوں پر چلتے ہوئے ہم بھی نشیب میں اترتے ہی چلے گئے۔ دھیمی سی روشنی میں مقبرے میں متعین ملازم ٹارچ ہلا ہلا کر ہمیں آگے جانے کا راستہ دکھا رہے تھے۔
سیڑھیاں ختم ہوئیں تو نسبتاً ایک کشادہ راہداری نظر آئی، ابھی اس میں کچھ ہی دور سفر کیا تھا تو ایک دفعہ پھر سیڑھیاں آگئیں اور اندر ہی اند رآگیبڑھتی گئیں۔ پھر ایک اور راہداری آگئی۔ غرض یہ کہ وہاں سیڑھیوں اور راہداریوں کا ایک وسیع و عریض جال بچھا ہوا تھا۔ بیچ میں ایک دو دفعہ ذہن میں آیا بھی کہ یہ سلسلہ تو شیطان کی آنت کی طرح ختم ہونے میں ہی نہیں آ رہا ہے، تو کیوں نہ واپسی کا سفر اختیار کیا جائے۔ پھر دل کڑا کرکے آگے بڑھتے ہی گئے یہاں تک کہ ہم ایک بڑے ہال میں داخل ہوگئے جو چار بڑے ستونوں پر کھڑا تھا اس کے ساتھ ہی بغل میں ایک اور چار ستونوں والا ہال تھا جس کا دروازہ ایک اور کمرے میں کھلتا تھا۔ یہ ساری تعمیرات ماضی کے سیلابی پانیوں اور نمی کی وجہ سے بُری طرح برباد ہوچکی تھیں تاہم ابھی بھی دیواروں پر ابھرے اور کھدے ہوئے نقش و نگار اور تحریریں موجود تھیں۔ جن کی تھوڑی بہت مرمت کر دی گئی تھی، تاہم ابھی تک وہاں سیلن اور گھٹن کا احساس ہو رہا تھا۔ بڑے ہال کمرے سے ایک بار پھر ایک راہداری سیدھی نکلتی چلی گئی تھی جو ایک چھوٹے سے کمرے میں داخل ہوئی۔ جس میں سے ایک بغلی راستہ دائیں طرف ایک قطار میں بنے ہوئے بہت سے کمروں کی طرف جا رہا تھا۔ ان کمروں کے پیچھے اپنے آپ کو خدا کہنے والے اس فرعون کا مدفن تھا۔ یہ ایک بہت ہی وسیع و عریض ہال تھا جس کے وسط میں اس کا تابوت رکھا گیا تھا اور اب یہ جگہ خالی تھی،کچھ بھی تو نہیں تھا یہاں۔
اس مدفن کے ساتھ ساتھ بھول بھلیوں کے انداز میں بنائے گئے درجنوں چھوٹے بڑے کمرے تھے جو ظاہر ہے اس زمانے کے رسم و رواج کے مطابق بادشاہ کے حیات ثانیہ حاصل کرنے کے بعد ممکنہ طورپر اس کے استعمال میں آنے والی چیزوں سے بھرے ہوئے ہوں گے۔ یہاں بھی کوئی دیوارایسی نہ تھی،جس پر ابھرے ہوئے یا کھدے ہوئے انداز میں پتھروں کو تراش کر تحریریں اور تصویریں نہ بنائی گئی ہوں۔
مقبرے کے اندر سے نکلنے والے زیورات اور نوادرات تو نہ جانے کہاں کے کہاں پہنچ گئے ہوں گے،کچھ تو چوروں نے ہی نقب زنی کرکے لوٹ لئے تھے اور کچھ رومن اور یونانی حکمرانوں کے تاج و تخت کی زینت بنے۔ جو دو چار چیزیں بچ گئی تھیں وہ کھدائیاں کروانے والے غیر ملکی سائنس اور تاریخ دانوں نے اٹھوا کر اپنے گھر بھیج دیں۔ اب تو وہاں ہر طرف سوائے سنگلاخی ستونوں اور مسمار چٹانوں والے کمروں کے اور کچھ نظر نہ آتا تھا۔ وہاں لکھی گئی تاریخ کے مطابق یہاں اس کے بیٹوں کے مقابر کے علاوہ اور بھی بیسیوں کمرے تھے جو سیلابی پانی کی وجہ سے مسمار ہوگئے یا اندر آ جانے والی مٹی کے سبب کیچڑ میں غرق ہوگئے تھے، تاہم اس مقبرے کے دریافت ہونے سے لے کر اب تک سوا سو سال سے زیادہ کا عرصہ گزرجانے کے باوجود ان زیر زمیں عمارتوں کے مزید اسرار و رموز جاننے کے لئے مسلسل کھدائیاں کی جا تی رہی ہیں اور اس دوران کچھ ایسی چیزیں بھی سامنے آتی رہی ہیں جن کا پہلے کسی کو علم ہی نہیں تھا۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں