مفادات اور گناہ
انسان طبعاً خود غرض واقع ہوا ہے۔ وہ اپنا فائدہ اور اپنا تحفظ سب سے پہلے دیکھتا ہے۔ یہ خود غرضی اس کے حیوانی وجود کی بقا کے لیے ضروری ہے۔ وہ ایسا نہ کرے اور اپنے مفادات اور تحفظ کو پیشِ نظر نہ رکھے تو زیادہ وقت نہ گزرے گا کہ وہ موت کے گھاٹ اتر جائے گا یا اسے بہت سے نقصانات اٹھانے پڑیں گے۔
تحفظ اور مفادات کی یہی نفسیات ہے جو انسانوں کو بقائے زندگی کی جدوجہد پر آمادہ کرتی ہے۔ اسی کے لیے انسان شکار کرتا، کھیتی اگاتا، تجارت اور ملازمت کرتا رہا ہے۔ اسی کے لیے انسان مال جمع کرتا، گھر بناتا اور خاندان اور قبیلوں کی شکل میں جْڑ اور مل کر رہتا ہے۔
تاہم مفاد اور تحفظ کی یہ نفسیات ان جائز حدود تک محدود نہیں رہتی۔ بلکہ انسانی تاریخ میں ظلم و ستم، نا انصافی، باہمی جھگڑوں اور اختلافات، دوسروں کی جان، مال اور آبرو کی پامالی، ان کی زمینوں پر قبضے ، دوسرے ملکوں اور اقوام پر حملے اور انسانوں اور قوموں کو غلام بنالینے تک کے جو سارے واقعات نظر آتے ہیں ان کے پیچھے اکثر یہی نفسیات کام کر رہی ہوتی ہے۔
غذا اور اجناس کی قلت کے زمانے میں بڑ ے تاجر اسی وجہ سے ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ سرکاری اہلکار اور حکومتی مناصب پر فائز لوگ اسی وجہ سے رشوت لیتے اور ناجائز مال کھاتے ہیں۔ ایک کمزور کو کسی طاقتور کے ہاتھوں ظلم و ستم کا شکار ہوتا دیکھ کر بھی کچھ کرنے کی قدرت کے باوجود لوگ اسی لیے خاموش رہتے ہیں۔
یہ رویہ بظاہر مفادات کا رویہ ہے۔ وقتی طور پر اس کے نتیجے میں انسان اپنے مفادات کا تحفظ کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ مگر یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ زیادہ دن نہیں گزریں گے کہ عالم کا پروردگار عدلِ کامل کا دن شروع کر دے گا۔ اس دن رائی کے دانے کے برابر بھی کسی نے اگر ظلم کر رکھا ہو گا تو وہ اْس سے اِس ظلم کا حساب لے گا۔
اگر کسی کا مال کھایا ہو گا تو اس کا حساب دینا ہو گا۔ کسی کو گالی دی ہو گی تو اس کا جواب دینا ہو گا۔ کسی کی زمین پر قبضہ کیا ہو گا تو اس بوجھ کو بہرحال اتارنا ہو گا۔ کسی کی آبرو پر حملہ کیا یا کسی پر بہتان لگایا یا کسی کو جسمانی یا ذہنی ایذا دی ہو گی تو ان میں سے ہر چیز پر مؤاخذے سے گزرنا ہو گا۔
یہ وہ دن ہو گا جب ہر شخص کو معلوم ہوجائے گا کہ سب سے بڑا مفاد اصل میں جنت کا حصول تھا۔ اور سب سے بڑا تحفظ جہنم کی آگ سے بچنا تھا۔ چنانچہ جن لوگوں نے دنیا کی زندگی میں جنت کے اس مفاد کو اور جہنم کے اس نقصان کو پیش نظر رکھا ہو گا وہی لوگ اْس روز سرخرو ہوں گے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے دنیوی مفادات سے پہلے ہمیشہ آخرت کے مفاد کے بارے میں سوچتے رہے۔ دنیا کے نقصان اور اس سے بچنے کی فکر سے پہلے جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ کے بارے میں فکرمند رہے۔
ایسے لوگ کبھی اپنے مفاد اور تحفظ کے لیے کسی پرظلم نہیں کرتے۔ کسی کا مال ناجائز طریقے سے نہیں کھاتے۔ کسی کی آبرو پر حملہ نہیں کرتے۔ اور اگر کبھی کسی وجہ سے ایسا کوئی معاملہ ہوجائے تو فوراً توبہ کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ اپنے گنا ہوں کی معافی مانگتے ہیں۔ سامنے والے کی جو حق تلفی ہوجاتی ہے ، اس کی پوری تلافی کرتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کی توبہ ان کے رب کے حضور مقبول ہو گی۔ رہے وہ لوگ جو اپنے مفاد اور اپنے بچاؤ کے لیے دوسروں کی جان، مال اور آبرو کو نقصان پہنچانے سے بالکل نہیں چوکتے ، وہ دراصل سب سے بڑھ کر اپنا نقصان کر رہے ہیں۔ وہ جنت کو چھوڑ کر جہنم کو اپنا ٹھکانہ بنا رہے ہیں۔ جنت کی محرومی سے بڑی کوئی محرومی نہیں۔ اور جہنم کے نقصان سے بڑا کوئی نقصان نہیں۔
۔
یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔