زہریلی فضائیں
جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو اس وقت ہر شےخوبصورت تھی یا خوبصورت لگتی تھی ۔ شہر، قصبے، گاؤں، ندی نالے، چشمے، نہریں، ندیاں، دریا، پہاڑ، سڑکیں، کچے پکے راستے پگڈنڈیاں اور کھیت ، سب کچھ حسین تھا ۔ماحول، صاف ستھرا، موسم اپنے وقت پر بدلتے، کسان وقت پر فصل بوتے وقت پر کاٹتے۔ سب کچھ فطرت کے اصولوں کے مطابق تھا ۔ اس لیے انسان خوش تھے۔ لیکن اب افسوس ہوتا ہے کہ کئی دہائیاں گزرنے کے بعد پاکستان اب پہلے جیسا نہیں رہا ۔ پہلے آسمان میں ستاروں کی جھلملاہٹ صاف نظر آتی تھی لیکن اب تو ستارے دیکھنے سے بھی بمشکل نظر آتے اب پاکستان کی فضائیں زہریلی ہو چکی ہیں صاف شفاف ہوا آلودہ ہو چکی ، ندیاں چشمے اور دریا ، بد بودار ہو چکے ، زہریلی گیسوں اور دھوئیں نے آسمان کے محفوظ خطوں کو پھاڑنا شروع کر دیا اور سموگ کی شکل اختیار کر لی ہے جس سے خوفناک بیماریاں، تیز رفتاری سے پھیل رہی ہیں شہریوں کو سانس لینے میں دشواری ہو رہی ہے ۔ہم اور ہمارے سیاست دان شروع میں تو آنکھیں بند کیے بیٹھے رہے لیکن اب حالات بد سے بدتر ہو گئے ہیں پنجاب میں خاص طور پر لاہور میں صورتحال کافی نازک ہو چکی پہلے پہل دھند ہوتی تھی لیکن اس میں شفافیت تھی لیکن اب یہ زہر آلود نہ ہوچکی ہے اور آئندہ برس اس کے پھیلاؤ اور زہر میں مزید اضافہ ہو گا اور یہ انتہائی الارمنگ سچئویشن ہےفضا ئی آلودگی یا سموگ کے پھیلاؤ میں ہم سب ذمہ دار ہیں یہ ایک عالمی مسئلہ بھی ہےلیکن ہم عالمی حالات تو بدل نہیں سکتے اس لیے بہتر ہو گا کہ پہلےاپنے گھر پر توجہ دیں اور ایسے انتظامات کریں جن سے یہ ابتر صورتِ حال بہتر ہو سکے حکومت کو بھی شاید اب ہوش آ گیا ہے وہ بھی اقدامات کرنے میں مصروف عمل ہیں لیکن ہر ممکن کوشش کے باوجود قدرت کے کاموں میں مداخلت نہیں کی جا سکتی خدا ہم سے راضی ہو جائے تو شاید برسات ہو اور تغیر میں کچھ بہتری آئے ۔ اس کےعلاوہ کچھ فوری نوعیت منصوبے بنائے جا سکتے ہیں آج کل گاؤں ، قصبوں اور شہروں تک گاڑیاں اس قدر بڑھ چکی ہیں کہ گاڑیوں کا چلنا محال ہو چکا ہے اس بے ہنگم ٹریفک سے ڈیزل، پٹرول اور گیس کے اخراج ہونے سے فضا اس قدر آلودہ ہو چکی ہے کہ ماسک پہننا ضروری قرار دیا جا چکا ہے۔گاؤں میں فصلوں کی کٹائی کے بعد جلانے والا عمل بھی سموگ یا فضائی آلودگی کا سبب بنتا ہے، بھٹوں اور فیکٹریوں سے نکلنے والا دھواں انتہائی زہریلا ہوتا ہے جو کہ سانس کی بہت سی بیماریوں کا سبب بنتا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ ان مضر صحت دھویں والی فیکٹریوں اور بھٹوں کو شہروں سے دور بنایا جائے۔ اس کے علاوہ سڑکوں ، شاہراہوں پر، پبلک ٹرانسپورٹ لائی جائے ،اس عمل سے گاڑیوں، موٹرسائیکلوں کی تعداد میں کمی واقع ہو گی اور سڑکوں پر رش بھی کم ہو جائے گاسکولوں ،کا لجوں،یونیورسٹیوں کو بسیں مہیا کی جائیں تا کہ طالب علم گاڑیوں ، موٹر سائیکلوں کی بجائے بسوں میں سفر کریں
سائیکل کو زیادہ اہمیت دی جائے اور کوشش کر کے ایک آگاہی مہم چلائی جائے جس میں سائیکل کے فوائد بتائے جائیں اور لوگوں کے لیے کم قیمت پر فراہمی ممکن بنائی جائے۔
ملکی سائنسدانوں کو اس مسئلے کے حل کے لیے معمور کیا ، جہاں تک ممکن ہو سکے اس کے حل کے لیے اقدامات کیے جائیں بیرون مملک سے بھی اس کے حل کی تجاویز لی جائیں تا کہ وہ ایسے آلات ایجاد کریں جو آلودگی روکنے میں معاون ثابت ہوں۔ریل گاڑی کے سفر کو عام کیا جائے اور اسے جدید اور آرام دہ بنایا جائے یہ آلودگی کو کم کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے
آلودگی کو کم کرنے کے لیے نچلی سطح تک لوگوں میں آگاہی مہم شروع کی جائے۔ تا کہ لوگ اس مسئلے کو سمجھ سکیں۔ اور آلودگی کو کم کرنے میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔زیادہ سے زیادہ درخت لگائے جائیں ملک میں شجر کاری ہر سال کی جاتی ہے لیکن ابھی تک اس کے خاطر خواہ فوائد نظر نہیں آئے ۔ درخت قدرت کا عطیہ ہیں،ہمیں مفت آکسیجن فراہم کرتے ہیں۔ درختوں کو کاٹنا ایک قومی جرم قرار دیا جائےاور اس پر سختی سے عمل درآمد کرایا جائے ۔ فیکٹریاں اور کارخانے زہریلے مواد کی Treatmentنہیں کرتے ان پر نہ صرف جرمانے کیے جائیں بلکہ اگر وہ اپنی حرکتوں سے باز نہ آئیں تو ان کا رخانوں فیکٹریوں کو بند کر دیا جائے۔ افسوس کہ ماحولیات کا محکمہ تو ہمارے ملک میں موجود ہے لیکن اس کی کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس محکمے اور وزیر کو بااختیار کیا جائے اور متحرک کیا جائے تو جلد ہی اس کے اثرات نظر آنے لگیں گے اور ہماری آلودہ فضا اپنی اصل حالت کی طرف لوٹ آئے گی۔ان منصوبوں پر اگر آج سے ہنگامی بنیادوں پر عمل شروع کیا جائے تو امید کی جا سکتی ہے کہ آئندہ برس فضائی آلودگی میں کافی حد تک کمی واقع ہو چکی ہو گی۔اس کے علاوہ فیکٹریوں ، کارخانوں، اور ندی نالوں کا قریہ قریہ گاؤں گاؤں جائزہ لے کر ان کا حل تلاش کرنا ہو گا۔ فیکٹریوں سے نکلنے والا زہریلا دھواں روکنے کے لیے سائنسی ذرائع اختیار کرنے پڑیں گے۔ اس کے علاوہ کارخانوں اور اسپتالوں اور شہروں کا کچرا ٹھکانے لگانے کے لیے مستقل حل تلاش کرنا ہوں گے ۔ صرف یہی نہیں قدرت کی حسین وادیاں جو کہ قدرت کا حسین شاہکار ہیں انکو بھی آلودہ ہونے سے بچانے کیلیے اقدامات کرنے ہوں گے۔ مری جسے کبھی ملکہ کوہسار کہا جاتا تھا اب وہاں کی فضا میں بھی گاڑیوں کے دھویں کی ملاوٹ صاف نظر آتی ہے۔ملک سے آلودگی کا صفایا انتہائی ضروری ہے اگر ہم آلودگی کو نہ مٹا کسے تو آلودگی ہمیں مٹا دے گی۔
نوٹ: یہ مصنفہ کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں