پارا چنار میں دہشت گردی
صوبہ خیبرپختونخوا کے ضم شدہ قبائلی ضلع کرم کی لوئر تحصیل میں مسافر گاڑیوں کے قافلے پر نامعلوم مسلح شرپسندوں نے اندھا دھند فائرنگ کر دی، جس کے نتیجے میں چھ خواتین اور 10 سالہ بچی سمیت چالیس سے زائد افراد جاں بحق جبکہ 30زخمی ہو گئے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق صدر مقام پارہ چنار شہر سے قافلے کی صورت میں پشاور جانے والی مسافر گاڑیوں پر ٹل پارہ چنار مرکزی شاہراہ پر لوئر کرم کے علاقے اُوچت میں نامعلوم افراد گھات لگائے بیٹھے تھے، جب یہ دونوں قافلے مندوری اور اچک کے مقام پر ایک دوسرے کو کراس کر رہے تھے تو حملہ آوروں نے آگے اور پیچھے والی گاڑیوں پر اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔مسلح افراد نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت انتہائی منظم انداز میں 100 گاڑیوں پر مشتمل ان قافلوں کو نشانہ بنایا۔حملہ آوروں نے پہلے قافلوں کے سکیورٹی حصار کو توڑا،پھر خواتین اور بچوں کو بھی نشانہ بنایا۔ ضلع کرم پاکستان کا واحد قبائلی خطہ ہے جس کی تین اطراف سے سرحدیں افغانستان سے ملتی ہیں اور ایک طرف سے یہ خیبرپختونخوا سے منسلک ہے۔قبائلی ضلع کرم میں کچھ عرصے سے حالات کشیدہ ہیں، ضلع کو باقی اضلاع سے ملانے والی شاہراہ پر وقتاً فوقتاً مختلف قبائل کے لوگوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے،اِسی لئے یہاں سے گزرنے والوں کو قافلے کی صورت میں گزارا جاتا ہے، شروع اور آخر میں سکیورٹی اہلکار ہوتے ہیں۔اس واقعے میں مسلح افراد نے پہلے ان سکیورٹی اہلکاروں کو انگیج کیا اور پھر مسافروں کو نشانہ بنایا۔ یاد رہے کہ قریباً ڈیڑھ ماہ قبل (12 اکتوبر) کو بھی اپرکرم کے علاقے کنج علی زئی میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے 18افراد جاں بحق ہو گئے تھے جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے،اُس واقعے کے بعد مرکزی شاہراہ کئی ہفتوں تک ہر قسم کی ٹریفک کے لئے بند رہی تھی۔
سانحہ کیخلاف پارہ چنارشہر میں جمعے کو مکمل شٹرڈاؤن ہڑتال ہوئی۔ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور نے واقعے کا نوٹس لیا، صوبائی وزیر قانون کے علاوہ متعلقہ قومی و صوبائی اسمبلی اراکین اور چیف سیکرٹری پر مشتمل وفد کو فوری طور پر کرم کا دورہ کرنے اورمعروضی حالات کی روشنی میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی۔ کرم میں صورتحال کو بہتر بنانے کے لئے جرگے کو پھر سے فعال کرنے اور صوبے بھر میں تمام شاہراہوں کو محفوظ بنانے کے لئے صوبائی ہائی ویز پولیس کے قیام کے احکام بھی جاری کئے۔ صدرِ مملکت آصف زرداری، وزیراعظم شہباز شریف اور وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی سمیت قومی قیادت نے ضلع کرم میں شرپسندوں کی معصوم شہریوں کے قافلے پر حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور اَمن دشمنوں کی طرف سے معصوم شہریوں کے قافلے پر حملے کو حیوانیت کے مترادف قرار دیا۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے 19 نومبر کی اپیکس کمیٹی اجلاس کے فالواپ میں پشاور کا دورہ کیا جہاں اُنہیں موجودہ سکیورٹی صورتحال اور انسدادِ دہشت گردی آپریشنوں پر ہونے والی پیش رفت سے متعلق بریفنگ دی گئی۔ آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف کا کہنا تھا کہ پاک فوج دہشت گردی کے نیٹ ورک کے خاتمے کے لئے پُرعزم ہے۔اُنہوں نے شہداء اور غازیوں کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے خطرات کا مقابلہ کرنے کے لئے فوجیوں کے بلند حوصلے، آپریشنل تیاری اور غیر متزلزل عزم کو سراہا۔
خیبرپختونخوا اور بلوچستان اِس وقت دہشت گردوں کے نشانے پر ہیں۔ رواں سال اکتوبر تک پاکستان میں دہشت گردی کے600 سے زائد واقعات ہوئے جس میں سے 95 فیصد سے زائد کارروائیاں خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں ہوئیں۔ان میں سینکڑوں فوجی جوان اور شہری شہید ہوئے۔ دہشت گردی کی اِس بڑھتی لہر کے پیش نظر چند روز قبل ہونے والے اپیکس کمیٹی اجلاس میں بلوچستان آپریشن کا فیصلہ کیا گیا۔ سکیورٹی فورسز اِن دہشت گرد عناصر کے خلاف جُتی ہوئی ہیں،انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز جاری ہیں، چُن چُن کر دہشت گردوں کو ہلاک کیا جا رہا ہے۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے چند ماہ قبل ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ادارے دہشت گردوں کے خلاف روزانہ کی بنیاد پر ایک سو سے زائد چھوٹے بڑے آپریشن کر رہے ہیں۔ جمعرات کو بھی سکیورٹی فورسز نے خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے مختلف اضلاع میں کارروائیاں کرتے ہوئے سکیورٹی فورسز پر حملوں اورمعصوم شہریوں کی ٹارگٹ کلنگ میں ملوث خوارج سمیت سات دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا۔آپریشن کے دوران ہتھیار، گولیاں،دھماکا خیز مواد بھی بر آمد ہوا ہے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق بنوں آپریشن میں تین خوارج ہلاک اور دو زخمی ہوئے جبکہ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں بھی کارروائیوں کے نتیجے میں دو ہائی ویلیو ٹارگٹ سمیت چار دہشت گرد ہلاک ہوئے۔
بلوچستان میں دہشت گرد تنظیموں کے خلاف جامع آپریشن کا فیصلہ ہو چکا ہے،اس کو زیادہ کامیاب بنانے کے لئے اس کا دائرہ خیبرپختونخوا کے اُن اضلاع تک بھی بڑھانا چاہئے جو اِس وقت دہشت گردی کی لپیٹ میں ہیں لیکن آپریشن کرتے ہوئے عام شہریوں کا تحفظ یقینی بنانا لازم ہے۔پاکستان میں دہشت گردی پر کافی حد تک قابو پا لیا گیا تھا لیکن پاکستان تحریک انصاف کی نرم پالیسی کا ملک دشمن عناصر نے ناجائز فائدہ اُٹھایا اور ملک میں دہشت گردی ایک مرتبہ پھر سر اُٹھانے لگی۔اس مرتبہ سکیورٹی اہلکاروں کے ساتھ ساتھ نہ صرف مقامی لوگوں بلکہ غیر ملکیوں کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
جہاں جہاں دہشت گردی بڑھ رہی ہے وہاں کے رہائشیوں کے لئے زندگی مشکل ہو رہی ہے، وہ احتجاج کر رہے ہیں، اپنے غم دنیا کو دکھا رہے ہیں، جس کے قریبی عزیز اس دہشت گردی کا شکار ہو جاتے ہیں اس کے پاس تو عمر بھر کا دُکھ ہی رہ جاتا ہے ایسے میں ان لوگوں کی سنی جانی چاہئے،ان کے ساتھ ہمدردی کرنی چاہئے،ان کے زخموں کا کچھ تو مداوا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے، ان کی آہ و بکا کو نظر انداز کر دینا مناسب نہیں ہے۔اس مقصد کے لئے صوبائی حکومتوں کو خصوصی کمیٹیاں تشکیل دینی چاہئیں، مقامی جرگے کو فعال کرنا چاہئے تاکہ مقامی افراد کی داد رسی کی جا سکے اور دہشت گردوں کے گرد گھیرا تنگ کرنے میں مدد ملے۔ ملک کی معیشت بہتر بنانے اور ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالنے کے لئے دہشت گردی کا خاتمہ ضروری ہے۔ایسے تمام عناصر جو ملک میں امن دشمن کارروائیوں میں ملوث ہیں ان کا قلع قمع ہونا چاہئے، افغانستان اور دوسرے ممالک کی طرف سے ہونے والی دراندازی کا حل تلاش کرنا چاہئے۔اَمن و امان کی بنیادی ذمہ داری صوبائی حکومتوں کی ہے،اُنہیں دہشت گردی کے خاتمے کو اولین ترجیح بنا کر ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہئے،یہ بات اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں طے کی گئی تھی۔ مقامی سہولت کاروں کی نشاندہی کر کے ان کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہئے۔ یہ بات طے ہے کہ قومی سلامتی کے معاملات میں کسی قسم کی کوئی کوتاہی قابل ِ برداشت نہیں ہے اور امن قائم کرنے کے لئے عسکری و سیاسی قیادت کوایک ہو کر کام کرنا ہے۔