اسلامی ٹچ
اسے خدا کی مار نہ کہیں تو کیا کہیں کہ پی ٹی آئی بار بار پاکستانی عوام کی دین اسلام اورنبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے والہانہ محبت اور لگاؤ کو اپنے سیاسی مقاصدکے حصول کے لئے استعمال کرنے سے باز نہیں آتی، یہ عقدہ تب کھلا تھا جب پہلی بار قاسم خان سوری نے ٹرک پر سوار عمران خان کو کھلے مائیک پر مشورہ دیا تھاکہ خان صاحب اپنی تقریر کو اسلامی ٹچ بھی دے لیں اور خان صاحب کچھ سوچے سمجھے بغیر شروع ہو گئے تھے،اس کے بعدشیر افضل مروت نے کہہ دیا کہ پی ٹی آئی حکومت گرانے میں سعودی عرب کا ہاتھ تھا۔اب بشریٰ بی بی نے سیاست میں متحرک ہونے کے لئے اپنے سمیت خان صاحب کو شریعت کا ٹھیکیدار ثابت کرنے کے لئے دوبارہ سے سعودی عرب پر چڑھائی کردی ہے، اپنی سیاست کو اسلامی ٹچ دینے کا شوق انہوں نے سیاسی حکمت عملی کے طور پر اپنا رکھا ہے، اس میں شک بھی نہیں ہے کہ سیاست کا اصول حکمت عملی ہوتا ہے، جتنی اچھی حکمت عملی ہوتی ہے اتنی اچھی سیاست ہوتی ہے، لیکن عمران خان کے معاملے میں بار بار یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ ان کا اسلام گلے سے اوپر اوپر کا ہے، زبان پر تو اللہ رؐسول کا نام ہوتا ہے لیکن دل میں کچھ اور ہوتا ہے۔ عمران خان واحد سیاستدان ہیں جن کو تسبیح پھیرتے دیکھ کر بلھے شاہ یاد آجاتے ہیں کہ
تسبیح پھری دل نہ پھریا کیہ لینا تسبیح پھڑ کے
یہ بھی حقیقت ہے کہ عمران خان کے علاوہ دیگر سیاستدانوں اورفوجی آمروں نے بھی اسلام کو سیاسی حکمت عملی کے طور پر استعمال کیا ہے اور اس سے ان کی عوامی پذیرائی میں اضافہ ہوا ، اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ تمام لوگ اپنے عمل سے تو اپنے آپ کو اسلام پسند ثابت کرتے تھے لیکن ان کی زبان سے دعوے نہیں کئے جاتے تھے مگر یہاں تو بشریٰ بی بی بتارہی ہے کہ سعودی عرب میں توشریعت ختم ہونے جا رہی ہے جبکہ عمران خان نے مدینے میں ننگے پاؤں چل کر سعودی قیادت کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔ ایسا ہے تو پھرنوازشریف تورمضان کا آخری عشرہ گزارتے ہی مدینہ میں تھے، ان سے تو کبھی سعودی عرب کو خطرہ محسوس نہیں ہوا تھا ،یہ کون سی شریعت ہے جس کا تذکرہ بشریٰ صاحبہ کر رہی ہیں کہ جس سے سعودی عرب کو خطرہ محسوس ہونا شروع ہو گیا ہے۔یہ بھی کمال کی بات ہے کہ جوتے اتار کر خان نے مدینہ میں حاضری دی اور پراپیگنڈہ بشریٰ بی بی کے خلاف شروع ہو گیا؟پھر یہ کس شریعت میں لکھا ہے کہ وزیراعظم بننے کے لئے جوان اور شادی شدہ بچوں کی ماں کوطلاق دلوا کر شادی رچائی جائے۔ یہی نہیں بلکہ اس کے بعد بیوی کے حکم پردرگاہوں کی چوکھٹوں پر سجدے کئے جائیں، جیسے کہ وزارت عظمیٰ اس درگاہ کے طفیل ملنی ہے۔ حالانکہ قرآن بار بارکہتا ہے کہ شرک گناہ عظیم ہے اور اس کی معافی نہیں ہے۔ وفاقی شرعی عدالت میں سود کے خلاف مقدمہ لڑنے والے ایک ماہرمعیشت بتاتے ہیں کہ انہوں نے جب قرآن سے ثابت کیاکہ اسلام میں سود اس لئے حرام ہے کہ سود پر پیسہ لینے والا یہ سمجھ کر اس کی بچت کا سبب سود دینے والا شخص یا ادارہ ہے دراصل شرک کا مرتکب ہوتا ہے کیونکہ وہ اسے اپناان داتا سمجھ بیٹھتا ہے اوراللہ کے بہترین رازق ہونے کوبھول بیٹھتا ہے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ اس نادان کا بھی ہے جو دنیاوی شہرت اورطاقت کے حصول کے لئے اللہ کے علاوہ کسی اورکے آگے سجدہ ریز ہوتاہے۔
26ویں آئینی ترمیم کے بعد کوئی اور ترمیم ہو یا نہ ہو،ایک اور ترمیم کے ذریعے سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے اسلام کا نام استعمال کرنا قابل تعزیر جرم قرار دیا جائے۔ عمران خان کے روپ میں جس قسم کے اسلام کا پرچار ہوا ہے اس سے نئی نسل گمراہی کا شکار ہوئی ہے کیونکہ نہ صرف یہ کہ عمران خان کی جانب سے شادیوں پرشادیاں رچانے پر جب یہ دلیل دی گئی کہ یہ ان کا ذاتی فعل ہے، کسی کو تنقید کا حق نہیں تواس سے نئی نسل کواپنی غلطیوں کا جوازدینے کا موقع مل گیا۔ حتیٰ کہ عدت کے دوران نکاح کے عمل کو بھی جائز قرار دینے کی کوشش کی گئی حالانکہ یہ اللہ کی مقرر کردہ حد ہے جس کو خلاف ورزی نہیں ہو سکتی، اس اعتبار سے عمران خان کی شکل میں اسلامی شعائر کا مذاق اڑایا گیا اور ان کے ہاتھ میں پکڑی چھوٹی سی تسبیح کو اسٹیٹس سمبل بنالیا گیا اوراس وقت دیکھا دیکھی کئی ویسی ہی تسبیح کو ہاتھ کی چوڑی بنا کر پہنے گھومتے نظر آئے۔شکر ہے کہ اب یہ ٹرینڈ ختم ہوا ہے اور مردوں نے دکھاوے کی چوڑی پہننا بند کر دیا ہے۔
دیکھا جائے توبشریٰ بی بی کو اس کے سوا اور کچھ نہیں آتا جو کچھ وہ کرتی یاکہتی نظر آتی ہیں لیکن یہاں پرمذہبی حلقوں کاکام شروع ہوتاہے کہ وہ ایسوں کی نالش لیں لیکن بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ عمران خان اوران کی اہلیہ کی شریعت کے حوالے سے ہمارے مذہبی حلقوں نے چپ سادھی ہوئی ہے۔ اب سے پہلے اس روش کی وجہ تو سمجھ آتی تھی کہ جنرل فیض حمید نے ان کے بولنے اور ٹوکنے پر پابندی لگائی ہو گی لیکن اب جب کہ جنرل فیض حمید کا کردارصفر ہو چکا ہے، اب مذہبی حلقوں کوکیاپرابلم ہے کہ چپ سادھے ہوئے ہیں اور عدت کا معاملہ ہو یا پھر شریعت کا، کہیں سے کوئی صدائے احتجاج بلند نہیں ہوئی ہے۔ ہماری اسٹیبلشمنٹ کوبھی سمجھنا چاہئے کہ وہ سیاسی قیادت کے نام پرکیسے کیسے رنگیلے شاہ ملک مسلط کرتی جا رہی ہے۔
اگر کج رو ہیں انجم آسماں تیرا ہے یا میرا
مجھے فکر جہاں کیوں ہو جہاں تیرا ہے یا میرا
اگر ہنگامہ ہائے شوق سے ہے لامکاں خالی
خطا کس کی ہے یارب لامکاں تیرا ہے یا میرا