کنٹینرز پالیسی، کیا واحد حل یہی ہے؟
ذوالفقار علی بھٹو کا دور تھا اور تحریک نظام مصطفےٰ چل رہی تھی۔ جلسے جلوس ایک معمول بنا ہوا تھا۔ خاص طور پر ملتان کا حسین آگاہی چوک ان سرگرمیوں کا گڑھ تھا، تاہم جلسے شروع ہوتے تو کئی کئی گھنٹے چلتے رہتے اور ان کے مقام بدلتے رہتے۔ جلوس بھی پورے شہر کا چکر لگاتے تھے، کہیں روک ٹوک نہیں ہوتی تھی۔ایک دن نجانے انتظامیہ کو کیا سوجھی یا شاید اوپر سے کوئی حکم آیا تھا،انہوں نے قلعہ کہنہ قاسم باغ میں ہونے والے اپوزیشن جماعتوں کے جلسے کو ناکام بنانے کے لئے گراؤنڈ میں راتوں رات پانی چھوڑ دیا جنہوں نے یہ قاسم باغ سٹیڈیم دیکھا ہوا ہے، انہیں معلوم ہے کتنا وسیع و عریض ہے اور چاروں طرف تماشائیوں کے لئے سیڑھیاں بنی ہوئی ہیں۔اس سٹیڈیم میں فاطمہ جناح کے جلسے بھی ہوئے،اس سے پہلے خود ذوالفقار علی بھٹو نے جلسے کئے۔یہ تکنیک کسی نے استعمال نہیں کی تھی کہ پانی چھوڑ کر وہاں جلسہ گاہ کو ناکارہ بنا دیا جائے۔ مجھے یاد ہے میں بھی اس دن وہاں گیا، ایک بڑا ہجوم اکٹھا ہو چکا تھا، مگر سٹیج بن سکتا تھا اور نہ کھڑے ہونے کی جگہ تھی۔موسم بھی سردیوں کا تھا، اس لئے پانی میں ایک منٹ کھڑا ہونا بھی مشکل تھا۔ خیر اس کے باوجودیہ جلسہ قاسم باغ کی ان خشک جگہوں پر ہوا،جو اس وقت دستیاب تھیں اور بڑے بڑے سیاسی و مذہبی رہنماؤں نے خطاب کیا تاہم جلسے کا وہ تاثر نہ بن سکا جو قاسم باغ سٹیڈیم کے اندر ہزاروں افراد کی موجودگی سے بن سکتا تھا۔پانی چھوڑنے کی یہ تکنیک بعدازاں ایک روایت بن گئی اور دوسرے شہروں میں بھی استعمال کی جانے لگی۔ اب بھی کبھی کبھار استعمال ہوتی ہے اور گزشتہ دنوں مینار پاکستان کے گراؤنڈز میں پانی چھوڑ کر زندہ کی گئی۔ اب دور ہے دوسرا۔ جلسے اب کسی سٹیڈیم یا باغ میں نہیں ہوتے سڑکوں پر ہوتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا سیاسی حکمرانوں کو جلسوں سے ڈر بھی نہیں لگتا تھا۔ان کی پالیسی ”ہوتے ہیں تو ہوتے رہیں“ ہوتی تھی۔ زیادہ دور جانے کی بات نہیں عمران خان کے دور میں جلسے اور لانگ مارچ ہوتے رہے۔ کراچی سے اسلام آباد اور لاہور سے اسلام آباد کا لانگ مارچ تو معمول کی بات رہی، مگر اب ایک خاص رجحان متعارف ہو چکا ہے اسے پنجابی ہی کہہ سکتے ہیں ”بندے کھٹے نئیں ہون دینے“ پالیسی اس رجحان کی وجہ سے جلسہ اگر اسلام آباد میں ہو تو بند پورا ملک ہو جاتا ہے۔ لاہور میں جلسے کی تاریخ دے دی جائے تو کراچی اور پشاور سے آنے والی موٹرویز بھی بند کر دی جاتی ہیں۔ یہ کیا پالیسی ہے اور اس کا کیا فائدہ ہے؟ کبھی کسی نے اس پر سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ بس مکھی پہ مکھی ماری جا رہی ہے۔ حکومت نے کنٹینروں کے شہرآباد کرنے کی عادت بنا لی ہے۔ جلسہ دو دن بعد ہو تو راستے انہی کنٹینروں سے دو دن پہلے بند کر دیئے جاتے ہیں۔ سارے ملک کو جام کرکے جلسے کی تاریخ کے بعد وفاقی وزراء یہ فخریہ اعلان بھی کرتے ہیں، عوام نے احتجاج کی کال کو مسترد کر دیا ہے جبکہ حقیقت اس کے برعکس یہ ہوتی ہے تحریک انصاف جلسہ نہ کرکے بھی کامیاب کہلاتی ہے کہ اس کے مقاصد پورے ہو چکے ہوتے ہیں۔ یہ کھیل بڑے تسلسل سے جاری ہے اور اب تو اسے سکہ رائج الوقت قرار دینا چاہیے۔
تحریک انصاف نے 24نومبر کو اسلام آباد پہنچنے کی فائنل کال دی تو اس کا کوئی دوسرا حل تلاش کرنے کی بجائے وہ کنٹینر پالیسی اختیار کی گئی۔ پہلے صرف موٹرویز مختلف جگہوں سے بند کی جاتی تھیں، اب شہروں کے اندر بھی کنٹینروں کا جمعہ بازار لگا نظر آتا ہے۔ لاہور کے بہت سے دوستوں نے بتایا ہے موٹروے اور جی ٹی روڈ کی طرف جانے والے شہر کے اندرونی راستوں کو بھی بند کر دیا گیا ہے جس سے شہریوں اور ان علاقوں کے مکینوں کو شدید دشواری کا سامنا ہے۔اُدھر اسلام آباد اور راولپنڈی کے جڑواں شہر بھی کنٹینروں کے شہر میں بدل چکے ہیں۔ اب قصہ یہ ہے کہ تحریک انصاف کے ہاتھ حکومت کی ایک ایسی کمزوری آگئی ہے، جس سے وہ خوب فائدہ اُٹھا رہی ہے۔ صرف ایک کال دینی ہے، ایک تاریخ رکھنی ہے اور بس پھر حکومت کی پھرتیاں دیکھنی ہیں ابھی ایک خبر گردش کررہی تھی کہ تحریک انصاف نے اپنی نئی پالیسی جاری کی ہے، جس کے مطابق قافلے 24نومبر کو چلیں گے اور 24نومبر کو اسلام آباد پہنچیں گے یہ ایک شوشا بھی ہو سکتا ہے لیکن اس کا خوف تو طاری رہے گا اور پورا ملک ایک دو دن نہیں پورا ہفتہ بند رہے گا۔ نقل و حمل ہو سکے گی اور نہ کاروباری مراکز کھلیں گے۔ اپنے ہی عوام سے خوفزدہ ہو کر زندگی کو مفلوج کرنے کی حکمتِ عملی سمجھ سے بالاتر ہے۔ پچھلے دنوں اسلام آباد میں یہ منظر بھی دیکھا گیا کہ پولیس نے سڑکوں پر ایک جلوس نکالا، نعرے لگائے، اپنی دھاک بٹھائی۔ میں حیران ہوں ہمارے ماضی کے حکمرانوں کو یہ سب کیوں نہیں سوجھا یا وہ اس قسم کی سرگرمیوں کو حماقت سمجھتے تھے۔ کیا پولیس کا کام یہ ہے وہ سڑکوں پر جلوس نکال کے اپنی موجودگی کا احساس دلائے۔ کیا عوام اندھے اور بہرے ہیں جنہیں معلوم ہی نہیں کہ اسلام آباد میں پولیس بھی اور اس کے تھانے بھی موجود ہیں۔انہیں یہ باور کرانا پڑے گا کہ ہم بھی تو پڑے ہیں راہوں میں۔ ہمیں مان لینا چاہیے کہ جہاں دیگر معاملات میں ہم تنزل کا شکار ہوئے ہیں،وہاں انتظامی و سیاسی معاملات میں بھی ہماری گرفت بہت کمزور بلکہ احمقانہ ہو گئی ہے۔
احتجاج موخر ہو جائے گا یا نہیں اس سے قطع نظر سوال یہ ہے آئے روز کا یہ تماشا کب ختم ہوگا۔ کنٹینرز لگ گئے، کنٹینرز ہٹا لئے گئے، راستے بند ہو گئے، راستے کھول دیئے گئے، کیا اس دائرے میں ہم گھومتے رہیں گے۔ موٹروے اتھارٹی کی طرف سے اس بار یہ مضحکہ خیز نوٹیفکیشن جاری کیا گیا،مرمت کی وجہ سے اسلام آباد جانے والی موٹروے کو بند کر دیا گیا ہے لیکن موٹروے کی تاریخ میں ایسا ہوا ہے کہ مرمت کی وجہ سے اسے کئی دن کے لئے بند کر دیا گیا ہو۔ وہ کون سی مرمت ہے جو سڑک بند کرکے کی جا رہی ہے۔ سچ کیوں نہیں بولا جاتا کہ ایک جماعت کے قافلوں کو روکنے کے لئے سڑک بند کر دی گئی ہے۔ یہ عوام کو بے وقوف سمجھنے اور بنانے کا سلسلہ جاری رکھنے کا مشورہ کون دیتا ہے، باہر نکل کے دیکھے تو اسے معلوم ہو اس دور میں پانی چھوڑنے اور کنٹینرز لگانے کا دفاع نہیں کیا جا سکتا۔ گزشتہ دِنوں وزیراعظم شہبازشریف نے یہ بیان دیا تھا ہم نے دھرنے دینے ہیں یا ترقی کے راستے پر آگے بڑھنا ہے،اس کا فیصلہ کرنا ہو گا۔ ظاہر ہے کوئی بھی نہیں چاہتا کہ دھرنا سیاست کو جاری رکھا جائے، مگر اس کے لئے کچھ تو کرنا پڑے گا،جہاں جہاں گنجل ہے، اسے کھولنا ہوگا۔ ضد اور انا کے پہاڑ بنا کے اگر دو فریق بیٹھ جائیں تو سوائے انارکی،بے چینی اور بے یقینی کے کیا ہاتھ آ سکتا ہے۔ گزشتہ کئی دنوں سے سن رہے ہیں تحریک انصاف اور اعلیٰ سطحی رابطوں کا سلسلہ جاری ہے۔ اگر یہ وقت گزاری کی پالیسی ہے تو اس سے کچھ حاصل نہیں ہونا، اگر واقعی اس بحران اور ڈیڈ لاک سے ملک کو نکال کے آگے لے جانا ہے تو پھر کنٹینروں سے ہٹ کر جرأتمندانہ فیصلوں کی طرف آنا ہوگا۔ گریہ نہیں تو بابا پھر سب کہانیاں ہیں۔