مجلہ ”تحقیق“ کے تازہ شمارے پر ایک نظر
ہم اپنے کالموں میں متعدد بار اورئینٹل کالج سے شائع ہونے والے ریسرچ میگزینز کے گرتے معیار پر اظہارِ خیال کر چکے ہیں۔سر دست ہمارے سامنے مجلہ تحقیق کا تازہ شمارہ(جنوری مارچ 2019ء) ہے، جس میں آٹھ مقالات شامل ہیں، جن کے بارے میں ایڈیٹر مجلہ جناب پروفیسر ڈاکٹر محمد سلیم مظہر کا اداریے میں کہنا ہے:”امید ہے کہ مشرقی ادبیات کے قارئین اور محققین ان مقالوں کی اشاعت کو علم و ادب کے فروغ و تحقیق میں بہت مفید پائیں گے“۔ فاضل ایڈیٹر کے پاس چونکہ پرو وائس چانسلر کا منصب ہے،اس لئے ظاہر ہے ان کے کاندھوں پر پوری یونیورسٹی کی ذمہ داری ہے۔ شاید اسی لئے انہوں نے اپنے ساتھ دو نائب مدیران بھی مقرر کر رکھے ہیں: جناب ڈاکٹر حامد اشرف ہمدانی اور ڈاکٹر سید محمد فرید۔ مجلس ادارت کے تینوں فاضل ممبران ماشاء اللہ پی ایچ ڈی بھی ہیں اور پروفیسر بھی۔ ہمیں ان کی علمی لیاقت پر رتی برابر شبہ نہیں، صرف ادارتی ذمے داریوں کے بارے میں انہیں احساس دلانا مقصود ہے۔
8 صفحات پر مشتمل پہلا مقالہ زیر عنوان”مشرقی فکر و فلسفہ میں تصور انسان“ ڈاکٹر روبینہ یاسمین کا ہے۔اس میں فارسی کلاسیکی شعراء عمر خیام، شیخ سعدیؒ، مولانا روم اور حافظ کے چند اشعار پر ترتیب دیئے گئے مقالے میں کوئی نئی بات نہیں ملتی۔ اگر اشعار اور سجاد ظہیر، شبلی نعمانی اور عبدالحکیم جالندھری کے نثری اقتباس نکال لیں تو باقی کوئی چیز نہیں بچتی۔”مشرقی فکر و فلسفہ“ کے الفاظ سے قاری کو دھوکہ دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ شاید مختلف زمانوں اور خطوں کے مشرقی دانشوروں کے تصور انسان کو سامنے لایا گیا ہے۔نہایت سطحی مقالہ ہے، جسے غالباً صرف اگلے گریڈ میں ترقی کے لئے لکھا گیا ہے۔
سجاد آصف کا مقالہ ”پاپولر ناول کے نظریاتی مباحث اور روایت“14صفحات پر مشتمل ہے اور کافی اچھی کاوش ہے۔ مباحث کا معیار عمدہ ہے۔ لکھاری ریسرچ کی مبادیات سے واقفیت رکھتا ہے۔ زبان بھی معیاری برتی ہے۔17صفحات پر مشتمل تیسرا مقالہ ”سرائیکی افسانے میں مزاحمت، ایک تحقیقی جائزہ“ اوسط درجے کا ہے۔ دو اصحاب کی مشترکہ کاوش ہے:ڈاکٹر سید صفدر حسین اور ایاز احمد رنڈ۔ مزاحمتی رویے کو ملکی اور سرائیکی وسیب کے پس منظر میں بڑے سلیقے سے نمایاں کیا گیا ہے۔ البتہ مقالے کا معیار اونچا ہو سکتا تھا اگر لکھاری اور فاضل مدیران زبان، املا اور پروف کی غلطیوں پر توجہ دیتے۔ایسے اکھڑے پکھڑے فقرے ایڈیٹر صاحبان کی نظر سے بھی شاید نہیں گزرے:
٭…… ہمارے ملک کے سیاستدان اور ملک، جام، میاں چودھری جیسے سیانے لوگ ہمارے بھولے بھالے لوگوں کا گوشت نچوڑ رہے ہیں (ص 40:)
یہ گوشت نچوڑنے کا محاورہ بھی خوب ہے!
٭ اپنی بیوی اور بچوں کو اس بے حس معاشرے کی نظر چھوڑ کے بیرون ملک دولت کمانے چلے جاتے ہیں (ص36:)
تذکیر و تانیث کے معاملے میں بھی کئی جگہ غلطیاں در آئی ہیں۔ ایک دلچسپ غلطی یہ ہے کہ مقالے کے آغاز کی تین سطریں آگے صفحہ31 پر مکرر درج کی ہیں،لیکن وہاں حوالہ دے دیا ہے کہ ان کی لکھاری فرح منظور ہے۔صفحہ31 پر ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کا سال1979ء کی بجائے 1977ء لکھ دیا ہے۔
غلام مصطفی کا مقالہ ”فہمیدہ ریاض کی ترجمہ نگاری“ سات صفحات پر مشتمل ہے اور مباحث کے حوالے سے کافی ادھورا معلوم ہوتا ہے۔لکھاری نے اپنی ممدوحہ کے ترجمہ کے بارے میں جو ریمارکس دیئے ہیں ان کا مثالوں کے ذریعے کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا۔ فہمیدہ کے ذاتی حالات چاہے اختصار ہی سے لکھے، تاہم بحیثیت ریسرچر ان کا فرض تھا کہ تاریخ وفات مکمل لکھی جاتی،محض نومبر 2018ء لکھ دینا کافی نہیں ہوتا۔ مقالہ ”کشمیر میں ظروف سازی“محترمہ ڈاکٹر نصرت نثار صاحبہ کا ہے،جو شعبہ کشمیریات پنجاب یونیورسٹی کی سربراہ ہیں، چونکہ ان کی زندگی کا ابتدائی حصہ مقبوضہ کشمیر میں بسر ہوا ہے اِس لئے مقالے میں موضوع کے حوالے سے ان کے ذاتی مشاہدات بھی شامل ہیں۔یہ مقالہ نو صفحات پر مشتمل ہے اور معیار کے لحاظ سے کافی بہتر ہے۔
آخری اُردو مقالہ محترمہ ڈاکٹر عاصمہ قادری کے قلم سے ہے جس کا عنوان ہے:”میلہ شاہ حسین“ …… عنوان سے یوں لگا جیسے انہوں نے میلے کی تاریخی اور ثقافتی حیثیت و اضح کی ہو گی،لیکن ان کا سارا زور قلم شاہ حسین لاہوریؒ کی صوفیانہ شاعری کی قدیم لاہور کے پس منظر میں تشریح و توضیح پر صرف ہو گیا ہے بہت حیرت ہوئی کہ انہوں نے جو شعری اقتباسات پیش کئے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ شاہ حسینؒ کو اللہ تعالیٰ سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ہر کوئی جانتا ہے کہ صوفی اپنے خالق سے اتنی شدید محبت رکھتا ہے،کہ اس کا ایک ایک بال ہمہ وقت ”مَیں ناہیں سبھ توں“ پکارتا رہتا ہے۔ ادب کے عمرانی مطالعہ کا مطلب یہ نہیں کہ صوفی کی فکر کے ڈانڈے صرف معاشرتی ماحول ہی سے جوڑ دیئے جائیں۔ سیکولر حلقوں کی یہ انتہا پسندی ہے کہ وہ صوفی کے باطنی تجربات و مشاہدات کو بھی دنیاوی معنے پہنا دیتے ہیں۔ہمارے نزدیک اس مقالے کی نمایاں خصوصیت اس کی زبان ہے، جو یہاں کم ہی کسی اسکالر کو نصیب ہے۔البتہ مقالے کا عنوان کچھ ہے اور مندرجات کچھ،دوسرے اسے ریسرچ پیپر کہنا مشکل ہے۔ایسے مقالات صرف اگلے گریڈ میں پہنچنے کے لئے لکھے جاتے ہیں۔
ڈاکٹر نجیب منیر کا مقالہHistorical Genesis of Pakhtoons with special reference to semitic& asyan theories
اور ڈاکٹر سید علی رضا کا the kashmiri Shawalاپنے اپنے موضوع کی رعایت سے اچھے مقالات ہیں۔
یہ تسلیم کہ ان مقالات کو شاملِ اشاعت کرنے سے پہلے ماہرین سے رائے طلب کی گئی لیکن کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ فاضل مدیران کا کام صرف یہی تھا کہ انہیں من و عن اٹھا کر چھاپ دیتے۔ بعض مقالات کی غلطیاں دیکھ کر لگتا یہی ہے کہ انہوں نے ان تحریروں کو خود پڑھنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی۔