کاروان حیات، وہ ادارہ جہاں پاکستانیوں کا علاج تقریباً مفت ہوتاہے، پریشان حال قوم کیلئے بڑی خوشخبری

کراچی (تمکین کاشف عباسی)کاروان حیات، انسٹیٹیوٹ فار مینٹل ہیلتھ کیئر، 38سال سے پاکستان میں مینٹل ہیلتھ کیئر مہیا کرنے والا سب سے بڑا ادارہ ہے۔ کاروان حیات معاشرے کے غریب اور مستحق طبقے پر توجہ مرکوز رکھتا ہے اور انہیں مفت اورمعیاری کیئر مہیا کرتا ہے۔ کاروان حیات میں 96فیصد ضرورت مند مریضوں کو علاج معاملے کی سروسز بالکل مفت یا بہت زیادہ رعایتی قیمت پر مہیا کی جاتی ہیں۔ کاروان حیات پر جتنے مریضوں کا علاج ہوتا ہے ان میں سے 85فیصد میں علامات میں نمایاں کمی نظر آتی ہے اور ڈسچارج ہونے والے مریضوں میں علامات کے واپس آجانے کے واقعات بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔
محتاط اندازوں کے مطابق پاکستان میں 7کروڑ 36لاکھ (آبادی کا 34فیصد)لوگوں کو زندگی میں کبھی نہ کبھی کسی طرح کی ذہنی بیماری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ شرح انتہائی تشویشناک ہے۔ ذہنی بیماری پاکستان میں سب سے زیادہ نظر انداز کیا جانے والا شعبہ ہے۔ زیادہ تر لوگ خاموشی سے ذہنی امراض کو برداشت کرتے ہیں کیونکہ ہمارے معاشرے میں ان امراض سے متعلق بات کرنا بھی معیوب سمجھا جاتا ہے۔ ذہنی امراض معمولی ڈپریشن اور ذہنی پریشانی سے شروع ہو کر سنگین نوعیت کے نفسیاتی عارضوں سکیزوفرنیا، بائی پولر اور پوسٹ ٹرامیٹنگ سٹریس ڈس آرڈر تک ہو سکتی ہیں جو کہ معاشرے کے نچلے طبقات میں زیادہ پائی جاتی ہیں، جس کی بڑی وجوہات ان طبقات کی محرومی، عدم مساوات اور امتیازی سلوک ہے جو روزانہ کی بنیاد پر نچلے طبقے کے لوگوں کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔
مزید براں ذہنی امراض کا علاج اس قدر مہنگا ہوتا ہے کہ غریب مریض اس کی سکت نہیں رکھتے۔عالمی سطح پر ان امراض کا معاشی بوجھ اڑھائی ٹریلین ڈالر ہے جو کہ 2030ءتک بڑھ کر 6ٹریلین ڈالر ہو جائے گا۔ اس میں سائیکائٹرک کیئرپر اٹھنے والے اخراجات بھی شامل ہیں جو کہ براہ راست لاگت ہے اور تعمیری و تخلیقی صلاحیتوں کا ختم ہو جانا بھی، جو کہ بالواسطہ اثر ہے۔
پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق ڈیڑھ کروڑ لوگ ذہنی امراض کا شکار ہیں۔ صرف کراچی میں یہ تعداد اندازاً 20لاکھ تک پہنچتی ہے، جو کسی نہ کسی طرح کے ذہنی عارضے کا شکار ہیں۔
جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ دنیا کو اس وقت کورونا وائرس کی وباءجیسے بہت بڑے چیلنج کا سامنا ہے۔ اس وباءسے لاحق ہونے والا معاشی نقصان ہر کسی کے لیے تباہ کن ثابت ہواہے لیکن پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کے لیے یہ نقصان بہت بڑا ہے جہاں ہیلتھ کیئر انفراسٹرکچر بہت کمزور اور افسوسناک حد تک ناکافی ہے۔ آئے روز بدلتے میڈیکل الرٹس اورپریشان کن میڈیا کوریج کی وجہ سے لوگوں میں ذہنی پریشانی اور تناﺅ میں بہت اضافہ ہوا ہے اور اس موذی وائرس کی وجہ سے وہ گھروں میں تنہاءرہنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔چنانچہ ان حالات میں لوگوں کو جس قدر مینٹل ہیلتھ کیئر کی ضرورت ہے، اس سے پہلے کبھی نہ تھی۔
کاروان حیات میں اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ ہر مستحق مریض کو بروقت اور مسلسل مینٹل ہیلتھ سروسز مہیا کی جائیں۔ دل کی بیماریاں اور شوگر وغیرہ ایسے امراض ہیں جو بڑھتی عمر میں لوگوں کو لاحق ہوتی ہیں لیکن ان کے برعکس ذہنی امراض عین جوانی میں لاحق ہوتی ہیں اور مریض سے نارمل زندگی چھین لیتی ہیں۔ کاروان حیات میں علاج کے لیے جدید فارماکالوجی اور نئی کمیونٹی حکمت عملیاں اپنائی جاتی ہیں، جن کی بدولت علاج مزید مو ثر ہوتا ہے اور مریض کے واپس نارمل اور فنکشنل زندگی کی طرف لوٹنے کی راہ ہموار ہوتی ہے۔
کاروان حیات میں انٹرنیشنل کوالٹی سٹینڈرڈ ہیلتھ ٹریٹمنٹ پروسیجرز کے عین مطابق سروسز دی جاتی ہیں۔
چیف ایگزیکٹو آفیسر کاروان حیات ظہیر الدین بابر نے ایک سوال کے جواب میں اپنے سفر کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ جولائی 1983ءمیں پنجاب کالونی میں کاروان حیات کے پہلے کلینک نے کام شروع کیا۔ یہ ادارہ ڈاکٹر ظفر قریشی کے ذہن کی پیداوار تھا، جو اس وقت لیاقت جنرل ہسپتال کے شعبہ ذہنی امراض کے سربراہ تھے۔ وہ ان غریب مریضوں کی وجہ سے شدید بے چینی کا شکار رہتے تھے، جو ذہنی بیماری کا علاج کرانے کی سکت نہیں رکھتے تھے۔ انہوں نے ایسے مریضوں کی مدد کے لیے ایک مفت کلینک قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ بیگم لیاقت علی خان اور کراچی کی کچھ اور بااثر اور اہم شخصیات اس کے بانیان میں شامل تھیں۔ آج کیماڑی میں کاروان حیات کا 100بستروں کا حامل ہسپتال ہے، جامی میں ایک کلینک ہے اور کورنگی میں کمیونٹی سائیکائٹری سنٹر ہے۔
کاروان حیات کے منفرد فیچرز میں سے ایک ’سائیکائٹرک ری ہیبلی ٹیشن پروگرام‘ ہے جو کہ ’ڈے ٹریٹمنٹ پروگرام‘ کے طور پر چلایا جا رہا ہے۔ اس میں سائیکوتھراپی، فیملی سائیکو ایجوکیشن اور کیس مینجمنٹ شامل ہیں۔ اس کا مقصد مریضوں کو واپس زندگی کے دھارے میں شامل کرنا ہے۔ یہ ثبوتوں کی بنیاد پر چلایا جانے والا پروگرام ہے جو کہ ایک دہائی قبل امریکہ کی Rutgersیونیورسٹی کے فیکلٹی ممبرز کی طرف سے متعارف کرایا گیا۔ وہی اس پروگرام میں تربیت دیتے ہیں اور نگرانی بھی وہی کرتے ہیں۔ ڈے کیئر پروگرام ہفتے میں 5دن صبح ساڑھے 9بجے سے سہ پہر ساڑھے 3بجے تک ہسپتال میں داخل یا گھر سے آنے والے دونوں طرح کے مریضوں کے لیے ہوتا ہے۔ ہفتے کے روز یہ صرف ان مریضوں کے لیے ہوتا ہے جو ہسپتال میں داخل ہوتے ہیں۔ اس پروگرام میں مریضوں کو آرٹس اینڈ کرافٹس، یوگا اور جسمانی ورزشوں جیسی سرگرمیوں سے دوبارہ متعارف کرایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اس پروگرام میں موسیقی و کمپیوٹر ٹریننگ، سلائی، بیوٹیشن ٹپس، لائبریری سیشنز، کھانا پکانے کی کلاسز، باغبانی اور مووی سیشنز بھی ہوتے ہیں۔ اس پروگرام میں مریضوں کو روزگار سے متعلق کی طرح کی مہارتیں سکھائی جاتی ہیں اور بعض کیسز میں انہیں کاروان حیات میں ہی روزگار مہیا کیا جاتا ہے۔
ظہیر الدین نے زور دیتے ہوئے کہا کہ معاشرے کو ذہنی امراض کے شکار لوگوں کے حقوق اور ضروریات کے حوالے سے انتہائی اہم کردار ادا کرنا ہو گا۔ کم اور متوسط آمدنی والے ممالک میں 76سے 85فیصد مریضوں کو علاج ہی مہیا نہیں ہوتا۔ ذہنی امراض میں مبتلا لوگوں کو صرف علاج ہی نہیں بلکہ سماجی سپورٹ اور کیئر کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ ایک دراڑ ہے جسے کاروان حیات بروقت اور پیشہ وارانہ علاج کے ذریعے بھرنے کی جستجو رکھتا ہے تاکہ ذہنی امراض کے شکار لوگ اپنی کمیونٹی میں دوبارہ متحرک زندگی گزارنے کے قابل ہو سکیں۔
ادارے کو درپیش چیلنجز سے متعلق بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ذہنی امراض پر بات کرنا بھی جس طرح ہمارے ہاں شجرممنوعہ خیال کیا جاتا ہے اور لوگ شرم کے مارے بھی اپنی بیماری کے متعلق بات نہیں کر پاتے، یہ کاروان حیات کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے۔ ہم ذہنی امراض سے جڑے تمام منفی حوالوں کو ختم کرنے کی مسلسل کوشش کر رہے ہیں۔ کاروان حیات جس طرح ذہنی امراض کے شکار لوگوں کو سروسز مہیا کرنے کے لیے پرعزم ہے، اس سے ہزاروں لوگوں کو امید کی کرن دکھائی ہے۔
مینٹل ہیلتھ کیئر سسٹمز میں سروسز مہیا کرنے میں جو رکاوٹیں ہیں، ان کے حوالے سے کاروان حیات طویل عرصے سے سسٹم کی طرف سے نظرانداز کیے جانے والے مستحق لوگوں کی نمائندگی کرتا ہے۔ کارپوریٹ سیکٹر اور مخیر حضرات کاروان حیات جیسے اداروں کی مدد کر سکتے ہیں، جو نہ صرف علاج معالجے کے پروگرام چلا رہے ہیں بلکہ مریضوں کو ووکیشنل ٹریننگ بھی مہیا کرتے ہیں تاکہ علاج کے بعد وہ معاشرے کے مفید شہری بن سکیں اور تعمیری زندگی گزار سکیں۔