لاہور اسٹیشن پر درجہ اول کے مسافر خانے کو منہ بگاڑ کے ویٹنگ روم کہا جاتا ہے،یہاں کے عارضی مکینوں کے تو ٹھاٹھ باٹھ ہی نرالے ہوتے ہیں

مصنف:محمدسعیدجاوید
قسط:109
یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے گو پہلے جیسی شان و شوکت کے ساتھ نہیں۔ لاہور، کراچی، راولپنڈی جیسے بڑے سٹیشنوں پر عموماً دو طرح کی انتظار گاہیں ہوتی ہیں، ایک تو عام سی یعنی جو درجہ سوم کے مسافروں کے لیے ہوتی ہے جس میں ایک بڑے سے ہال میں عموماً بنچیں لگی ہوئی ہوتی ہیں جہاں پنکھوں، روشنی، ٹھنڈے پانی اور بیت الخلاء کا انتظام ہوتا ہے، تاہم اپنے کھانے پینے کا بندوبست خود ہی کرنا پڑتا ہے۔ مسافر باہر پلیٹ فارم کے کسی سٹال پر کھانا کھا آتے ہیں اور اپنے اہل خانہ کے لیے ساتھ لے آتے ہیں۔ ایک آدھ ریلوے کے ملازم کو وہاں متعین کر دیا جاتا ہے جو صرف ڈیوٹی نبھایا کرتا ہے۔ اور وہیں کہیں کسی بنچ یا سٹول پر بیٹھا اونگھتا نظر آتا ہے۔
چھوٹے اسٹیشن پر درجہ سوم کی انتظار گاہ اول تو ہوتی ہی نہیں اور جو ہو بھی تو اس میں کچھ بھی نہیں ہوتا حتیٰ کہ بنچ تک بھی نہیں۔یہاں لوگ فرش پر ہی اپنا سامان بکھرائے ادھر اْدھر لوٹنیاں لگاتے رہتے ہیں۔وہاں بھی محکمے کا ایک ملازم ہوتا ہے اور کبھی نہیں بھی ہوتا۔ وہ صرف انتظار گاہ کے مکینوں کی حرکات و سکنات پر نظر رکھتا ہے۔ یہ نئے آنے جانے والے مسافروں کے لیے جگہ بنوانے کے لیے فرش پر پہلے سے قابض اور سوئے ہوئے لوگوں کو جھنجھوڑ اور ڈانٹ ڈپٹ کر کے کچھ نہ کچھ راستہ نکال لیتا تھا۔
لاہور جیسے مرکزی اسٹیشن پر درجہ اول کے مسافر خانے کو ناز نخروں سے اور ذرا منہ بگاڑ کے ویٹنگ روم کہا جاتا ہے اوریہاں کے عارضی مکینوں کے تو ٹھاٹھ باٹھ ہی نرالے ہوتے ہیں، ایک بہت بڑے ائیر کنڈیشنڈ کمرے اور شاندار ماحول میں ان کا بسیرا ہوتا ہے۔ وہاں ہال میں ابھی تک پرانے وقتوں کی بڑی بڑی کین کی بْنی ہوئی آرام دہ کرسیاں پڑی ہوتی ہیں جن پر ٹانگیں پسار کر بیٹھا یا لیٹا جاتا ہے۔ کپڑے ٹانگنے کے لیے کھونٹیوں والے چوبی اسٹینڈ کے علاوہ گدے والے بستر نما بنچ بھی لگے ہوتے ہیں۔ ویٹنگ روم میں ایک ملازم صفائی پر مامور ہوتا ہے جو وقتاً فوقتاً کمرے اور انگریزی طرز کے بیت الخلاء کی دیکھ بھال کرتا رہتا ہے۔ حمام میں ہاتھ منہ دھونے کے لیے سنک اورغسل کے لیے شاور کا انتظام بھی ہوتا ہے۔
مسافروں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ایک دو خدمت گار ہمہ وقت وہاں منڈلاتے رہتے ہیں جو اشارہ پاتے ہی دوڑے چلے ہیں اور حکم ملتے ہی باہر سے ان کی فرمائش کے مطابق اشیاء یا اسٹیشن پر ہی بنے ہوئے اعلیٰ درجہ کے مطعم سے صاف ستھرے برتنوں میں کھانا لا دیتے ہیں اور ٹھنڈے پانی کی فراہمی کو یقینی بناتے ہیں۔وہ ان کی مطلوبہ گاڑی کے اسٹیشن پر پہنچنے سے قبل ان کو ہوشیار کر دیتے ہیں، ان کا سامان سمیٹنے میں ان کی مدد کرتے ہیں اور پھرکسی قلی کو بلوا کر سامان اس کے حوالے کر دیتے ہیں جو انھیں مخصوص نشستوں پر پہنچادیتا ہے۔ رخصت ہونے سے قبل وہاں قیام کرنے والے اپنے کھانے کی قیمت اور خدمت گزار کو کچھ بخشش دینا نہیں بھولتے کیونکہ ایسا کرنا بڑے لوگوں کی سرشت میں شامل ہوتا ہے اور وہ یہ سب کچھ کرکے اچھا محسوس کرتے ہیں اور وہاں کے ملازم بھی ان سے ایسی ہی دریا دلی کی توقع رکھتے ہیں۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔