ہمارا باورچی مزارعہ کا ان پڑھ بیٹا تھا، ڈانٹ سے تنگ آکر ایک دن پوچھا، صاحب جی، یہ IDIOT کیا ہوتا ہے؟ میں نے شرارتاً کہا،بہت خوب، شاباش

 ہمارا باورچی مزارعہ کا ان پڑھ بیٹا تھا، ڈانٹ سے تنگ آکر ایک دن پوچھا، صاحب ...
 ہمارا باورچی مزارعہ کا ان پڑھ بیٹا تھا، ڈانٹ سے تنگ آکر ایک دن پوچھا، صاحب جی، یہ IDIOT کیا ہوتا ہے؟ میں نے شرارتاً کہا،بہت خوب، شاباش

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:رانا امیر احمد خاں 
قسط:18
1960ء کے عشرہ میں رانا امیر احمد خاں کی یوتھ موومنٹ کے پلیٹ فارم سے مفادعامہ کے لیے رہنمائی، سرگرمیوں اور حْسن کارکردگی سے متاثر ہو کر میں نے 1964ء میں پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ سوشل ورک میں داخلہ لیا۔ 1966ء میں سوشل ورک میں پوسٹ گریجوایشن کی ڈگری حاصل کی۔ حسن اتفاق سے 1967ء میں محکمہ سوشل ویلفیئر، حکومت پنجاب میں بطور سوشل ویلفیئر آفیسر میری تعیناتی لاہور میں ہو گئی۔ پرانی انار کلی میں رسول چیمبر کے ایک فلیٹ میں ساجد محمود بٹ اور رانا امیر احمد خاں کے ساتھ رہائش رکھنے کا اعزاز مجھے حاصل ہوا۔ یاد رہے اس وقت ہم تینوں مجرد زندگی بسر کر رہے تھے اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہم تینوں ہی لنگوٹے کے پکے تھے۔ یہاں گزارے ہوئے خوشگوار لمحات اب تک یاد آتے ہیں۔ نظم و نسق، حفظان صحت کے اصولوں کا پابند، پابندی اوقات کا شیدائی، دوسروں کے آرام و استراحت اور ضروریات زندگی کا خیال رکھنے والا دوست رانا امیر احمد خاں کے روپ میں میرے سامنے براجمان ہے۔انچارج ہونے کے باوجود باورچی رشید کو حکم تھا کہ پہلے ساجد محمود بٹ اور محمد سلیم چوہدری کو کھانا دینا ہے اور بعد میں مجھے۔ رسول چیمبر کی رہائش کے دوران ایک رونما ہونے والاایک واقعہ رانا امیر احمد خاں سے معذرت کے ساتھ آپ سب کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ رانا امیر احمد خاں جب کبھی ملازم باورچی کی غلطی، کوتاہی پر ناراض ہوتے تو اس سے مخاطب ہوتے ہوئے اکثر کہتے IDIOT رشید، یہ کام ایسے نہیں کرنا چاہیے۔ یہ کام ایسے کرتے ہیں۔ ہمارا باورچی رشید، رانا امیر احمد خاں کے گاؤں سے تعلق رکھنے والے ایک مزارعہ کا ان پڑھ بیٹا تھا۔ رانا صاحب کی ڈانٹ سے تنگ آکر ایک دن رشید نے راز داری سے مجھ سے پوچھا، صاحب جی، یہ IDIOT کیا ہوتا ہے؟ میں نے شرارتاً کہا IDIOT کا مطلب ہے۔ بہت خوب، شاباش، چنانچہ ملازم رشید مطمئن ہو گیا۔ کرنا خدا کا، ایک دن رانا صاحب IDIOT، رانا صاحب IDIOT۔ رانا صاحب ایسے ان ہونے حالات سے دوچار ہونے کے لیے بالکل تیار نہ تھے اور ملازم کوڈانٹتے ہوئے کہا۔ اوئے گستاخ، تیری یہ جرأت، تجھے ابھی بتاتا ہوں، حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے میں نے آگے بڑھ کر معذرت کی، جو خوش دلی سے قبول کر لی گئی۔ 
رانا امیر احمد خاں کا سب سے بڑا اور عمدہ وصف جو میرے مشاہدہ میں آیا وہ ان کی WILL POWER ہے۔ وہ اپنے دھن کے پکے ہیں۔ وہ ان کی اولو العزمی ہے۔ جس کام کو کرنے کا تہیہ اور ارادہ کر لیتے ہیں اسے پایہئ تکمیل تک پہنچائے بغیر چین سے نہیں بیٹھتے۔ سٹیزن کونسل کے صدر اکثر خود ہی جنرل سیکرٹری کے فرائض سرانجام دے رہے ہوتے ہیں اور خود ہی آفس سیکرٹری بھی خطوط کی آمدگی اور برآمدگی کا ریکارڈ بھی خود ہی مرتب کر رہے ہیں۔ مقصد یہی ہے کہ کام رکنے نہ پائے۔ الحمدللہ رانا امیر احمد خاں کی اولو العزمی اور کام میں دلچسپی و لگن کام آئی اور آج دیکھ رہا ہوں کہ کونسل ایک بڑے سایہ دار درخت کا روپ دھار چکی ہے اور کونسل کے اراکین میں جنرل (ر) راحت لطیف، آئی جی پولیس (ر) الطاف قمر، سابق اکاؤنٹینٹ جنرل پنجاب محمد جمیل بھٹی، شعبہ ابلاغیات پنجاب یونیورسٹی کے ہیڈ ڈاکٹر شفیق جالندھری، میجر (ر) محمد اقبال حسین، پروفیسر نصیر چوہدری، ممتاز ادیب قانون دان ڈاکٹر ظفر علی راجا، سابق ہیڈ کرنٹ افیئر PTV افتخار مجاز، رانا سعید احمد خاں، پروفیسر فرح زیبا اور ڈاکٹر محی الدین شامل ہیں۔ سٹیزن کونسل آف پاکستان ملک سے نہ صرف دہشت گردی، مذہبی تعصبات عدم تحفظ اورناانصافی کی جڑ سے بیخ کنی کے لیے کوشاں ہے بلکہ صحت، تعلیم، بیروزگاری اور ملکی استحکام کے لیے بھی سفارشات مرتب کرنے میں کوشاں ہیں۔ 
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -