میری پہاڑی مجھے واپس کرو!
عزیزم عبیداللہ عارف نے گُوگل میپ پر پنڈی، اسلام آباد کے نواح میں نئے رہائشی ٹھکانے کی نشاندہی کی تو خود میرے لیے وطنِ مالوف کے تازہ نقشے سے لاعلمی ندامت کا سبب بن گئی۔ یہ خیال بھی آیا کہ جب ہمارے شہر و قصبات میں مکانوں کو باقاعدہ نمبر نہیں لگے تھے تو منزلِ مقصود پر خطوط کی وصولی یقینی بنانے کی خاطر مکتوب الیہ کے نام کے آگے کسی نمایاں عمارت یا شخصیت کا اضافہ کر دیا جاتا۔ تب سرنامہ لکھنے کی ترتیب بھی مختلف تھی کہ پہلے شہر کا نام آتا، پھر محلہ اور کوئی تعارفی حوالہ، جیسے باالمقابل مسجد بابا اعظم یا معرفت محمد فاضل کریانہ فروش۔ ماضیِ قریب تک پتہ لکھنے کا یہ انداز بھی رہا کہ حاجی نعمت اللہ ٹھیکیدار کو مل کر مستری شبیر حسین کو مِلے۔ ’مِلے‘ کی آخری ’ے‘ کو بعض لوگ خوب طول دیکر ایڈریس کے نیچے ایک اختتامی لکیر کھینچ دیتے۔
اِس حکمت عملی کے پیچھے ایک تو یہ عمومی خدشہ ہو گا کہ احتیاط نہ برتنے کی صورت میں ہماری چٹھی راستے سے بھٹک کر دائیں بائیں ہو سکتی ہے۔ تاہم اِس میں خط لکھنے والوں کے الگ الگ مزاج کو بھی دخل تھا۔ مثال کے طور پر ماضی کے جانے پہچانے مزاح نگار اور گورنمنٹ کالج لاہور میں اردو کے صدر شعبہ میرزا ریاض اپنے ایک سیالکوٹی دوست کو خط لکھتے تو پتہ درج کرتے ہوئے اُن کے نام سے پہلے بلا ضرورت ’ڈاکٹر‘ لگاتے اور آخر میں ’اشک‘ کا تخلص چسپاں کر دیتے۔ شہر والوں کو معلوم تھا کہ یہ سب چھیڑ خوانی کے بہانے ہیں، ورنہ میرزا ریاض کے دوست کا سیالکوٹ میڈیکل سٹور اِتنا معروف ضرور تھا کہ اُس وقت کے چوک گھاس منڈی سے پہلے ’نزد سائیں پکوڑی والا‘ لکھنے کا کوئی جواز نظر نہیں آتا۔
لاہور کے ایک ماہنامے میں جسٹس ایم۔آر۔ کیانی کی رحلت پر اُن کے ایک خط اور لفافے کا عکس شائع ہوا جس میں ’مِل کر ملے‘ والی فنکاری نمایاں تھی۔ کیانی صاحب جیسے تخلیقی، رمز شناس اور جرأت مند چیف جسٹس ہائی کورٹ کے نفسیاتی محرکات کا ’سو ؤ موٹو‘ نوٹس لینا میرے بس سے باہر ہے۔ پھر بھی صحافت کے طالبعلم جانتے ہیں کہ انسانوں، عمارتوں اور واقعات کے یہ تعارفی حوالے خبر نویسی کی اصطلاح میں ’سائن پوسٹنگ‘ کہلاتے ہیں۔ مطلب ہے نام سے پہلے یا بعد میں کوئی ایسا علاقائی، تمدنی، تاریخی یا شخصی اشارہ شامل کر دینا جو کسی کی پہچان میں مدد دے سکے۔ جیسے پاکستان کے اولین وزیر اعظم لیاقت علی خان، مزاح نگاری کا منفرد نمونہ ’بجنگ آمد‘، ساٹھ سال پہلے ملک کا عبوری دارالحکومت راولپنڈی۔
یہ راولپنڈی، جس کے ایک نئے محلے کو ہم اسلام آباد سمجھتے، ’سائن پوسٹنگ‘ کی ایک منفرد مثال ہے۔ یوں کہ اگر آپ کوہِ مرگلہ کو خطِ مستقیم مان کر جنرل نکلسن کی یاد گار سے راولپنڈی جانے والی جرنیلی سڑک کو مثلث کا ایک ضلع تصور کر لیں اور اُس سے جڑی ہوئی مری روڈ کو دوسرا ضلع تو میرے لڑکپن کا زیادہ وقت اسی تکونی وادی کے آگے پیچھے گزرا ہے۔ سات آٹھ سال کی عمر میں واہ کینٹ سے کوئی دس کلو میٹر دُور مرگلہ پہاڑی کے ’لانگ شاٹ‘ کی خاطر اپنے سنگل سٹوری سرکاری کوارٹر کی چھت پر بذریعہ دیوار چڑھنے کے لیے ہمیں چھوٹا موٹا سرکس کرنا پڑتا۔ سبز پوش بارشوں کے موسم میں ہر روز پنڈی جانے والے کالج اسٹوڈنٹس یہ بھی سمجھتے کہ جی ٹی روڈ پر مرگلہ پر رُکنے والی لاری کا لوک گیت در اصل اِسی سرکاری بس کی شان میں ہے:
پنڈیوں آئی لاری
مار گلے کھلو گئی آ
آ کے مل ماہیا!
ساڈی بدلی ہو گئی آ
مَوج اس وقت لگی جب ہماری تعلیمی زندگی کے اواخر میں بھٹو حکومت نے طلبہ کے لیے دس پیسے والے اومنی بس ٹکٹ کا اعلان کر دیا۔ گورڈن کالج سے نکل کر ناز سنیما، سنٹرل ہسپتال، چاندنی چوک اور رحمان آباد کے راستے ڈبل ڈیکر مری روڈ کو چھوڑ کر موجودہ فیض آباد کے پاس ایک بڑا سا لیفٹ ٹرن لیتی۔ اسلام آباد کی شاہراہ پر چڑھتے ہی جھٹکے کم ہو جاتے اور قدرے ٹھنڈک کا احساس ہونے لگتا۔ بس کی بالائی منزل سے آبپارہ، میلوڈی، لال کوارٹر اور سٹیٹ بینک بمعنی نیشنل اسمبلی کی ’سائن پوسٹنگ‘ سے لطف لیتے ہوئے طالب علم کو اپنا آپ باوقار محسوس ہوتا۔ اُتنا ہی جتنے صدر میں صبح ڈیوٹی پر جاتے ہوئے سائیکل سوار میجر اور کرنل جن کی کاروں اور پلاٹوں کے بغیر بھی بہت عزت تھی۔
چند سال پیشتر طویل وقفے سے اسلام آباد جانے کا موقع ملا تو محسوس ہوا کہ دارالحکومت کی سائن پوسٹنگ دیکھتے ہی دیکھتے یکسر تبدیل ہو گئی ہے۔ بالکل یوں
جیسے اک چہرے کے ٹھہرے ہوئے مانوس نقوش دیکھتے دیکھتے یک لخت بدل جاتے ہیں، اکیسویں صدی سے پہلے ہم صوبائی سے وفاقی دارالحکومت کا رُخ کرتے تو یہی کہتے کہ راولپنڈی جا رہے ہیں، جس کے نواح میں اسلام آباد بھی ہے۔ جی ہاں، جنگ عظیم کی ناردرن کمانڈ والی نسل کا راولپنڈی جس کے حوالوں میں ووگیز کیفے، شیزان،بٹ صاحب کا بُک سینٹر، کریم بخش کے سموسے، منگو کا پان اور بینک روڈ کے ’لفٹین چوک‘ کی رونقیں بھی شامل رہیں۔ آج کا نیا اسلام آبادی سال میں ایک دفعہ بھی ماضی کے عبوری دارالحکومت میں جھانک کر نہیں دیکھتا، جس سے میری ذاتی سائن پوسٹنگ ذرا مشکوک ہو جاتی ہے۔ اِس پر یہ سوچ کر خود کو تسلی دے لیتا ہوں کہ انسانی دنیا میں سماجی تبدیلی کا چلن ہمیشہ موجود رہا ہے۔ خواہ آپ کو خطہء پوٹھوہار کے سب سے بڑے شہری مرکز سے پوٹھوہاری سننے کے لیے پچاس کلو میٹر دُور مرحوم اختر امام رضوی کے گوجر خان کا رُخ کیوں نہ کرنا پڑے۔
البتہ، میری سائیڈ پوسٹنگ سے جو ’ہینڈ‘ ہوا وہ کسی سے نہیں ہوا ہوگا۔ واقعہ ہے نکلسن کی یاد گار سے جڑی مرگلہ پہاڑی کی چوری۔ بات سمجھنے کے لیے ماضی میں میرے سفر کی طرح صبحدم واہ سے نکلیں اور پتا چلانے کی کوشش کریں کہ ٹیکسلا سے آگے دائیں ہاتھ پر جو مانوس سرسبز پہاڑ ی کھڑی تھی اُسے کِس ایٹم بم نے ’ہیرو شیما‘ بنا دیا ہے۔ شادابی کی جگہ کھائیاں، زمین کے سینے پر سرجری کے گھاؤ، حسنِ فطرت ایک دل دہلا دینے والا کھنڈر۔ کہتے ہیں کہ پتھر روڑے کوٹنے والی کرشر مشینوں کی سالہا سال کی محنت سے جی ٹی روڈ کے حصے کی مرگلہ پہاڑی نواحی بی۔17 سمیت اسلام آباد کی تعمیر کا سرمہ بن گئی ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی آگرہ کا تاج محل یا پیرس کا ایفل ٹاور چُرا لے جائے؟ یہ دونوں تو انسانی محنت کے شاہکار ہیں جبکہ میرے حصے کی مرگلہ پہاڑی قدرت نے اپنے ہاتھ سے بنائی تھی۔