”سردی،زردی، وردی، ہمدردی اورجوانمردی“
کچھ عرصہ پہلے تک غریب کی سردی انڈے اور لنڈے کی بدولت باآسانی گزرجاتی تھی۔ بھلے سردی جتنی بھی شدید ہوتی تھی، غریب کے چہرے پر زردی نہیں، خوشی ہوتی تھی۔لوگ ساگ کھاتے تھے۔ انڈے کی زردی کا حلوہ بناتے تھے۔ اللہ سائیں کے راگ گاتے تھے۔ چند لوگ مگرہر دور میں غربت کی لکیر کے اْس طرف رہ رہے ہوتے ہیں جہاں انڈے اور لنڈے کا بھی گزر تک نہیں ہوتا۔ آج کل تو سموگ کا ڈنڈا کوئی لکیر دیکھے بغیر ہر طرف برسنے لگ گیا ہے۔ انسان سکون کو ترسنے لگ گیا ہے۔ کتابیں بتاتی ہیں کہ سردیوں میں چیزیں سکڑ جایاکرتی ہیں۔ اب ہمارے ہاں سردیاں خود بھی سکڑ چکی ہیں۔ موسم کا مزا سموگ نے غارت کردیا ہے۔ پہلے لوگ سردی کاانتظار کرتے تھے اور کچھ بچے سال بھر نئی وردی کاانتظار کرتے تھے۔ چند والدین کے مالی حالات اتنے تنگ ہوتے تھے کہ وہ سال بھر اپنے بچوں کیلئے صرف ایک ہی وردی خرید سکتے تھے۔ گرمیوں میں وہی وردی دھو کر باآسانی پہنی جاسکتی تھی۔ سردی کے موسم میں ایسے گزارا کرنا مشکل تھا۔ایک شاعرکو اس بات کا بہت دْکھ تھا کہ ہمارے ملک میں غریب بچے گڑ کے علاوہ کسی بھی مٹھائی کی شکل دیکھنے کو ترستے ہیں اور اْن کی قسمت میں بعض اوقات ایک رضائی تک نہیں ہوتی۔ تب ہمارے ہاں سردی تھی، دہشت گردی نہ تھی۔ ہمدردی کا رواج تھا۔ محبت بھرا سماج تھا۔ لوگ ایک دوسرے کے ہمدرد تھے۔ جواں مرد تھے۔ امیر آدمی اگر چلغوزے، پستے اور اخروٹ کھاتا تھا تو غریب آدمی بھی خشک میوہ جات سے محروم نہیں رہتا تھا۔ مونگ پھلی عام تھی۔ بھلے صبح تھی یا شام تھی۔
سوہن حلوہ کھایا جاتاتھا۔ گھر گھر گڑ منگوایاجاتاتھا۔ میوؤں سے سجایا جاتاتھا۔ چھٹیوں میں لوگ رشتے داروں کے گھر جاتے تھے۔ خوشی غمی ساتھ مناتے تھے۔ سردیوں میں لوگ آوارہ گردی کرتے تھے۔ بعض لوگ رات بھر ڈائری لکھتے تھے۔ آوارہ گرد کی ڈائری شوق سے پڑھی جاتی تھی۔ ابن انشاء کا سفر نامہ ”آوارہ گرد کی ڈائری“ اْردو کے بہترین سفرناموں میں سے ایک ہے۔ ہمیشہ ہمارے ہاں گرمیوں کا موسم پوری شدت کے ساتھ آتا ہے۔ لوگ گرمی کاطویل موسم سردی کی آس میں گزار دیتے تھے۔ اب مگر سردی بھی لوگوں کی جان سے کھیلنے لگ گئی ہے۔ آج کے دور میں امیر آدمی تنہائی کو اور غریب آدمی رضائی کو ترستا ہے۔ ماضی میں دہشت گردی کا چلن اتنا عام رہا ہے کہ لوگ اب ہمدردی کرنے سے ڈرنے لگ گئے ہیں۔ پہلے ہمارے ہاں لوگوں کو اس بات کی بہت فکر ہوتی تھی کہ اگر اْن کے بچوں کے پاس اچھے کپڑے ہیں تو غریب ہمسائے کے بچے کے پاس کم ازکم سکول کی وردی تواچھی ہو۔ کسی کے گھر اگر بستر وافرہوتے تھے تووہ گھرانہ یہ بات بھی یقینی بناتا تھا کہ آس پاس کا کوئی غریب آدمی جرسی اور رضائی کے بغیر نہ ہو۔ہمارا معاشرہ ہمیشہ سے سعید اور سعادت مندلوگوں کا معاشرہ رہا ہے۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد مہاجرین کی ایک کثیر تعدادہجرت کرکے نئی مملکت میں آبسی۔ یہاں کے چندباسیوں کے رویے نے قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی یاد تازہ کردی۔ جملہ مسلمان”مواخات مدینہ“ کو ہمیشہ یاد رکھتے ہیں۔ جذبہِ ایثار پاکستانیوں کی پہچان ہے۔ لفظ ہمدردی سے ہمیشہ ”ادارہ ہمدرد“ کے بانی حکیم سعید صاحب یاد آجاتے ہیں۔
ہماری نسلِ نو کو ذہنی دہشت گردی سے محفوظ رکھنے کیلئے انہوں نے کراچی سے ”ماہنامہ نونہال“ کا اجراء کیا۔ یہ جریدہ بچوں میں ادب اور کتاب بینی کے فروغ، اخلاق اور کردار کو سنوارنے اوربچوں کی صحیح خطوط پرتربیت کیلئے شائع کیاجاتاتھا۔ حکیم صاحب بچوں سے اور بچوں کے ادب سے بے حد شغف رکھتے تھے۔ حکیم صاحب نے ”ہمدرد یونیورسٹی“ اور ”ادارہ ہمدرد پاکستان“ قائم کیا۔ وہ انتہائی جوانمرد اور اعلیٰ کردارکے حامل انسان تھے۔ اْن کا قائم کردہ ادارہ ایک فلاحی ادارہ ہے۔ادارہ کی تمام تر آمدنی تحقیق اور فلاحی خدمات پر صرف ہوتی ہے۔ پاکستانی قوم کی جذبہِ ہمدردی کی جیتی جاگتی مثال عبدالستار ایدھی ہیں۔ایدھی صاحب نے ذاتی جمع پونجی سے ایک ڈسپنسری کا آغاز کیا۔ کسی بھی تفریق کے بغیرنہایت دیانت داری سے جملہ انسانیت کی خدمت کی۔ دنیا کا سب سے بڑا ایمبولینس نیٹ ورک چلایا۔ قدرتی آفات کاشکار خطوں میں انسانی خدمت کی ایسی مثال قائم کی جس کا کوئی ثانی نہیں۔ آج بھی ”ایدھی فاؤنڈیشن“ نہ صرف پاکستان میں بلکہ دنیا کے دیگر علاقوں میں جذبہِ ہمدردی کی نت نئی مثالیں قائم کررہی ہے۔ ”اخوت فاؤنڈیشن“ بھی پاکستانیوں کی جذبہ ہمدردی کی ایک روشن مثال ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ”اخوت“کا دائرہ کارپورے پاکستان میں پھیل چکا ہے۔
”اخوت فاؤنڈیشن“ نہ صرف غریب لوگوں کو سود کے بغیر قرضے دیتی ہے بلکہ اْن کیلئے کپڑوں کابندوبست بھی کرتی ہے۔ اس موسم میں بالخصوص ہمیں انفرادی سطح پر بھی یہ کوشش کرنی چاہیئے کہ آدم کی اولاد میں سے ہرکوئی موسم کی شدت کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو۔ ہمارے بدترین دشمن وہ ذہنی دہشت گردہیں جو ہماری نسلِ نو کو اپنی درخشاں روایات سے متنفر کرنا چاہتے ہیں۔ ہمیشہ سے ہمارے ہاں ہمدردی کو جوانمردی سمجھا جاتا رہا ہے۔ ہمارے اسلاف جانتے تھے کہ بہتر وہی ہے جو دوسروں کیلئے بہترین ہے۔ اْن کاایمان تھا کہ انسان کے دل میں دوسروں کیلئے ہمیشہ ہمدردی ہونی چاہیئے۔ ہمارے لوگ معاشرتی فلاح کیلئے زندگیاں وقف کردیتے تھے اور اجر کی تمنا پاک پروردگار سے رکھتے تھے۔ ہماری قوم یہ راز جانتی ہے کہ ہمدردی ہی سچی جواں مردی ہے۔ فرقان میں مومنین کی ایک صفت یہ بھی موجود ہے کہ وہ مستحقین کی ضرورت کو اپنی ضرورت پر ترجیح دیتے ہیں۔ ماضی میں ہمارا معاشرہ ہر طرح کی دہشت گردی کی زد میں رہا ہے اور ذہنی دہشت گرد آج بھی اپنی پوری توجہ ہماری نسلِ نو پر مرکوز کیئے ہوئے ہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ ہمارے دشمن کبھی بھی کامیاب نہیں ہو سکے۔ ہماری روایات پائیدار ہیں۔ہمارا جذبہِ اخوت لوگوں کی نظر میں کھٹکتا ہے۔ ہمارے لوگ مل جل کے رہنے کے عادی ہیں اور خود غرضی سے نفرت کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کاخیال رکھنا ہمارے خمیر اور خون میں شامل ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے پاک وطن کے باسیوں کو اغیارکی جملہ سازشوں سے سدا محفوظ رکھے۔(آمین)
خدا کرے میرے اک بھی ہم وطن کے لیئے
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو