”ہورے نوں ہوری دی، انھے نوں ڈنگوری دی“
ضرب المثال ہر زبان میں مروج ہیں اور ہر ایک کے اپنے معانی اور پس منظر ہوتا ہے لیکن جو معنی خیز اور دور رس ضرب المثال پنجابی کی ہیں ان کا انداز ہی مختلف ہے۔آج کل کے ماحول کی مناسبت سے ایک ضرب المثل یاد آئی ”ہورے نوں ہوری دی تے انھے نوں ڈنگوری دی“ دور رس معنی تو یہ ہیں کہ سب کو اپنی اپنی پڑی ہوئی ہے، ہرکسی کو اپنے ساتھی اور اندھے کو لاٹھی کی تلاش ہے۔ آج کے حالات کی مناسبت سے یہ ضرب المثل بالکل درست نظر آتی ہے کہ چاروں طرف یہی کیفیت ہے اور ہر ایک کو اپنی اپنی سوجھ رہی ہے۔اسمبلیوں میں قواعد کے مطابق کارروائی جاری ہے تو احتجاج بھی ہو رہا ہے۔پنجاب اسمبلی میں حلف برداری کے روز ہی اندازہ ہو گیا کہ آئندہ کیا ہو گا اور کارروائی چلانا کس قدر دشوار ہو گا۔دوسری طرف سندھ میں ایک دوسرا ہی طریقہ اختیار کیا گیا۔پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کے سوا باقی تمام جماعتوں نے جن میں جماعت اسلامی، جی ڈی اے ، پی ٹی آئی اور جمعیت علماءاسلام (ف) نمایاں ہیں۔احتجاج کیا ہے،اسمبلی کے اجلاس میں پیپلز پارٹی کے 111اور ایم کیو ایم کے36 اراکین تھے، جنہوں نے حلف لیا اور یہ حلف اردو کے علاوہ سندھی اور انگریزی میں بھی لیا گیا،متعلقہ اراکین نے اپنی اپنی پسند کی زبان میں پڑھی اور کسی نے اعتراض نہیں کیا،باقی جماعتیں ایوان سے باہر احتجاج پر رہیں۔
جیسا بھی ہے، جو بھی ہے یہ ایک جمہوری عمل ہے اور اس میں جماعتوں اور اراکین کے روپے بھی سامنے آتے رہتے ہیں،اس حوالے سے حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ہر طرف معیشت کی پکار ہے۔ہر کوئی معاشی حالات کا ذکر کرتا ہے، لیکن عملی طور پر پورا معاشرہ تقسیم کا شکار ہے اور مراعات یافتہ طبقے کے مقابلے میں محروم افراد اور طبقات کی تعداد اور ان کے درمیان فرق مسلسل بڑھ رہا ہے بلکہ یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ بتدریج تین طبقاتی معاشرہ دو میں منقسم ہوتا جا رہا ہے اور متوسط طبقہ ختم ہو رہا ہے، کسی بھی معاشرے میں یہ طبقہ ریڑھ کی ہڈی متصور ہوتا ہے کہ اس کا کام توازن برقرار رکھنا ہے لیکن یہاں یہ صورتحال معدوم ہو گئی کہ مہنگائی اور آمدنی کا توازن خراب ہونے کے باعث درمیانی طبقہ نچلے درمیانی طبقے کی سطح پر آیا اور اب غربت کی طرف مائل ہے۔حالیہ دِنوں میں گیس اور بجلی کے بلوں کے باعث بڑے بڑے حضرات کی احتجاجی آواز سنی گئی ہے کہ یہ بل برداشت سے باہر ہو گئے۔ درمیانی سے نچلے متوسط طبقے میں آنے والوں کو بہت بڑا بوجھ محسوس ہوا ہے، ابھی ابتداءعشق ہے، آگے جو ہونا ہے شاید گیس اور بجلی کا استعمال ہمارے لئے دنیا کی مہنگی ترین عیاشی ہو اور برداشت نہ ہو سکے۔
اس سارے مسئلہ میں افسوس اور دُکھ کا پہلو یہ ہے کہ سب رہنما زبان سے بہت کچھ کہتے ہیں۔نگرانوں کا عمل یہ ہے کہ ”توں اپنی نبیڑ تینوں کسے نال کیہہ“ چنانچہ بالادست طبقہ جسے ایلیٹ یعنی اشرافیہ کا لقب دیا گیا ہے اپنے میں مگن ہے اور اگر ان کے درمیان کوئی اختلاف ہے تو وہ بھی یہ کہ بالادستی ان کی ہونا چاہئے،ورنہ پالیسی میں کوئی فرق نہیں۔ ہمارا پیارا پاکستان ایک ایسا ملک ہے، جس کی اشرافیہ امیر ہے اور ملک غریب ہے۔
بیرون ملک سے کوئی دانشور پہلی بار یہاں آئے تو حیران رہ جاتا ہے،سڑکوں پر دوڑتی بڑی بڑی گاڑیاں اور پوش آبادیاں کسی بھی ترقی یافتہ ملک کی برابری کرتی ہیں، سڑکوں پر ایسی گاڑیاں بھی لاتعداد ہیں، جن کی قیمت پانچ پانچ مرلے کے تین گھروں کے برابر ہے اور اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے حضرات کے گھروں میں بہرحال صرف ایک کار نہیں، چار پانچ ہوتی ہیں اور بعض گھرانے تو ایسے ہیں ،جہاں گھر کے ہر فرد کے لئے الگ کار ہے اور دوسری طرف بھوکے سونے والوں کی تعداد بڑھتی جاتی ہے۔
جب کبھی بھی ملک کے سیاسی حالات کا ذکر ہوتا ہے تو مینڈیٹ تسلیم کرنے یا نہ کرنے کی دہائی دی جاتی ہے۔ آج کل سانحہ ڈھاکہ(1971ئ) بار بار دہرایا جا رہا ہے اور ذکر مینڈیٹ کا کیا جاتا ہے،حالانکہ حقیقت بیان ہی نہیں کی جاتی،وہ ہے استحصال جو مراعات یافتہ طبقات محروم طبقے کا کرتے تھے اور ان کی بھاری بھر کم تعداد مغربی پاکستان میں تھی،انہی حالات کو شیخ مجیب الرحمن نے استعمال کیا، وہ ایک ایسی حد تک جا چکے تھے کہ اگر مینڈیٹ تسلیم کرنے والا معاملہ ہو جاتا تو ہمارا پاکستان دشمن ملک بھارت کا دست نگر ہوتا۔یہ مسئلہ اتنا پیچیدہ ہے کہ اس پر آج تک حقائق کے مطابق بات ہی نہیں ہوئی،میں اپنے تجربے کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ اس دور کی ایوب حکومت پروپیگنڈے کے سامنے بھی بے بس رہی اور اس کا حل پابندیوں میں تلاش کیا کہ مغربی پاکستان کے زمینی حقائق مشرقی پاکستان کے عوام تک نہ پہنچ پائے،اس کے لئے ذاتی مثال دیتا ہوں دورِ ایوب میں سانحہ مشرقی پاکستان سے قبل صحافیوں اور ادیبوں پر مشتمل ایک بھاری بھر کم وفد پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کی دعوت پر یہاں آیا۔لاہور میں ان کو بہتر جگہ ٹھہرایا گیا اور خاطر مدارت بھی ہوئی،پی ایف یو جے نے ان حضرات کو لاہور کے اہم مقامات دکھانے کا پروگرام بھی بنایا اور ایک گاڑی میری نگرانی میں دی کہ میں ان حضرات کو تاریخی مقامات کی سیر کراﺅں، جب ہم بادشاہی مسجد اور قلعہ لاہور دیکھ رہے تھے اور وفد والے تعریف کر رہے تھے تو میرے ذہن میں خیال آیا اور میں اس کے بعد یہ گاڑی لے کر راوی پل والے ریلوے پھاٹک لے گیا اور ان حضرات کو اتار کر سڑک کے دونوں اطراف گہرائی میں بنی جھونپڑی آبادی کا نظارہ کرایا۔یہاں نہ تو سیوریج کا کوئی انتظام تھا اور نہ ہی بچوں کے تن پر پورے کپڑے اور پاﺅں میں جوتے تھے اس کے بعد ان کو بند کے اندر والی کچی آبادیاں بھی دکھائیں اور واپس لایا،اس روز ایک تقریب نیشنل سنٹر الفلاح میں بھی تھی،ان دِنوں محترمہ کشور ناہید انچارج ڈائریکٹر تھیں۔مجھے اتنا بھی یاد ہے کہ وفد کی ایک خاتون ادیبہ، صحافی حسنہ (غالباً یہی نام تھا) نے اپنی تقریر میں یہ کہا تھا کہ آج ان کو حقیقی لاہور دکھایا گیا ہے اور معلوم ہوا کہ یہاں بھی محروم تر طبقات کی بہتات ہے جو انسانیت سے گری زندگی گزار رہے ہیں۔اس خاتون نے اِس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ باہر سے آنے والوں کو مال روڈ اور گلبرگ تک محدود رکھا جاتا ہے اور یوں تعصب پیدا ہوتا ہے۔بہتر ہو کہ آنے والوں کو اصل آبادی دکھائی جائے جس کی اکثریت بھی ہے۔
یہ عرض کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ آج کے دور میں بھی نام ملک اور عوام کا ہے کہ اپنے فوائد اور نام و نمود کا سوچا جاتا ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ جتنا قرض میرے ملک پر ہے، اسے اتارنا جوئے شیر لانے سے بھی مشکل ہے کہ اب تو ایک آدھ سال میں قرض کی قسط پورے ملک کے بجٹ کے برابر ہو جائے گی ایسے میں بھی سر جوڑ کر نہیں بیٹھا جا رہا اور ”ہورے نوں ہوری دی تے انھے نوں ڈنگوری دی“ کی پڑی ہوئی ہے۔