اسباقِ سیاست

گزشتہ روز دورانِ گفتگو پولیٹیکل سائنس کے ایک نوجوان سٹوڈنٹ نے یہ سوال داغ دیا کہ سر اگر منتخب حکومت ایک یا ڈیڑھ سال میں ناکام ہو جائے اور بھرپور عوامی مینڈیٹ کے عوض بہترین کارکردگی ڈلیور نہ کر سکے تو کیا پھر بھی وہ پانچ سال پورے کرے گی؟ سوال کا بالکل سیدھا جواب تو یہ بنتا ہے کہ ایسی منتخب حکومت جو کارکردگی کا وعدہ کرکے اقتدار میں آئے اور پھر بعد میں وعدہ سمیت کارکردگی ہی بھول جائے تو ایسی حکومت کو بجائے مزید چار سال عوام پر مسلط رہنے کے فوری طور پر عزت کے ساتھ مستعفی ہو جانا چاہئے مگر یہ تو بس کہنے کی باتیں ہیں یا زیادہ سے زیادہ ایسی باتوں کا تعلق اخلاقیات سے جوڑا جا سکتا ہے ایک بار اقتدار کی ضمام ہاتھ لگ جائے پھر کون ولی اللہ عوامی مفادات کی خاطر اپنی کرسی کو لات مارتا ہے، اوّل تا آخر سارا رولہ ہی حصولِ اقتدار کا ہے ورنہ انسانیت کی خدمت کیلئے لوگوں سے اْن کی رائے تھوڑی نا طلب کی جاتی ہے ظاہر ہے خدمت اور حکومت میں جوہری فرق ہے جمہوریت جو مغرب کی چند ایک سکینڈینیوین ریاستوں کے علاوہ دنیا میں کہیں حقیقی معنوں میں نظر نہیں آ رہی ہمارے ہاں تو اب ایک شغل بن چکی ہے ہر کہیں حصولِ اقتدار ہی کی جنگ جاری و ساری ہے پس کیا ایشیاء اور کیا یورپ، مجھے یہ بات انتہائی دکھ کے ساتھ کہنا پڑ رہی ہے کہ آج تک میں نے کوئی کتاب یا پمفلٹ ایسا نہیں دیکھا کہ جس میں عوام کو بالکل سادہ الفاظ میں سیاست کا سبق دیا گیا ہو گا اور نہ ہی کبھی الیکشن کمیشن آف پاکستان کو یہ توفیق نصیب ہوئی کہ چلو عام حالات میں نہ سہی الیکشن کے زمانہ میں ہی عوامی آگہی کیلئے سیاست کی مبادیات پر کوئی ایک آدھ پمفلٹ شائع کر دے،یقین جانئے ہمارے ہاں دیہاتی علاقوں میں تو آج بھی منظم فراڈ کو سیاست سمجھا جاتا ہے یعنی اگر گاؤں میں کوئی ایک شخص کسی دوسرے کے ساتھ دھوکہ دہی کر لے تو متاثرہ شخص کے منہ سے صرف ایک ہی لفظ نکلتا ہے کہ یار آپ نے تو میرے ساتھ بڑی زبردست سیاست کر لی گویا ہمارے ہاں دھوکہ دہی کا دوسرا نام سیاست ہے چنانچہ اب ایسے حالات میں کوئی بھی سیاست کو عبادت و خدمت کے دائرے میں کیسے رکھ سکتا ہے، سیاست کا بالکل سادہ مطلب یہ ہے کہ چند خدا ترس اور انسانیت کا صحیح معنوں میں درد رکھنے والے افراد اپنے ہی جیسے دیگر افراد کیلئے دستیاب وسائل میں سے تقسیم کے عمل کو یکساں طور پر یقینی بنائیں اور اس پورے عمل میں وہ نہ صرف بالکل غیر جانبدار رہیں بلکہ وہ اپنے انفرادی مفادات پر بھی نظر نہ رکھیں چنانچہ یہ ایک طرح کی اعلیٰ ترین انسانی خدمت ہے، سیاست کیلئے متبادل اصطلاح حکومت استعمال کرنا بھی اعلیٰ اخلاقی اصولوں کے یکسر خلاف ہے کیونکہ کسی بھی انسان کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنے ہی جیسے دوسرے انسانوں پر حکومت کرے، کسی انسان کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ اپنے ہی جیسے دوسرے انسانوں کی گردنوں میں غلامی و بے بسی کا طوق ڈال دے، ہاں اگر کوئی انسانی خدمت کیلئے اپنے آپ کو وقف کرنا چاہتا ہے تو یہ وتیرہ سیاست میں ایک جوہری مقام رکھتا ہے پس یہ بالکل بنیادی اور انتہائی اہم باتیں ہر شخص کیلئے جاننا بہت ضروری ہے تاکہ وہ ایک خالص جذبہِ خدمت لیکر سیاست میں حصہ لے سکیں، مجھ سے اکثر و بیشتر پوچھا جاتا ہے کہ ایک سیاستدان کی قابلیت کا بنیادی معیار کیا ہونا چاہئے اور میں ہر بار یہی کہتا ہوں کہ خدا ترسی، اور اس کی بہترین مثالیں ہمارے ہاں موجود بھی رہی ہیں کیا دنیائے سیاست میں کوئی ایسا سیاسی لیڈر بھی ہو گا جو خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان کی سیاسی جہد اور خدمات کا اعتراف نہ کرے؟ کیا آج کوئی پنجاب کے فقید المثل سپوت بھگت سنگھ اور بنگال کے عظیم سیاسی رہنما نیتا جی سبھاش چندر بوس کی سیاسی جہد و خدمات کا انکار کر سکتا ہے؟ اپنے لوگوں کو ایک غیر قوم کی غلامی سے آزاد کرنے کیلئے ایک اکیس سالہ نوجوان کے لازوال سیاسی جذبہ کی مثال دنیا کی کسی سیاسی تاریخ میں کہیں اور بھی ملتی ہے؟ سیاست تو وہ پڑھے لکھے بھی کر گئے جنہوں نے جلیانوالہ باغ، ڈائریکٹ ایکشن ڈے، نواکھالی فسادات اور بابڑہ قتلِ عام میں ہزاروں بے گناہوں کو موت کے گھاٹ اْتار دیا، سیاستدان ہونے کیلئے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونا ایک اضافی خوبی ہے اگر تعلیم ہو تو بہتر نہ ہو تو خدا ترسی و خدمت کا جذبہ بہرصورت ہونا چاہئے ورنہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ قومی خزانے کو لوٹ کر فرار ہو جائے گا اور غریب و مضمحل عوام سوائے زجر و توبیخ کے کچھ نہ کر سکے گی، اْصول و منطق سمجھانے کیلئے قابل ہونا لابدی ہے لیکن کسی کی خدمت کرنے کیلئے آپ کا پی ایچ ڈی ہونا ضروری نہیں، سیاست کا کوئی بھی نظم یعنی جمہوریت، ملوکیت، فوجی یا مذہبی آمریت کیوں نہ ہو اگر یہ نظم خدا ترسی پر مبنی نہیں ہے تو یہ نری تانا شاہی ہے، جب لوگ حصولِ اقتدار اور آرام طلبی کیلئے سیاست میں آئیں گے تو پھر نظم جمہوری ہو یا ملوکی عام آدمی کبھی سکھ کا سانس نہیں لے سکتا کیونکہ حکومت صرف عام لوگوں پر ہی کی جا سکتی ہے کیونکہ جو طاقتور طبقہ ہوتا ہے وہ خود سیاسی مقتدرہ کا حصہ ہوتا ہے، جب تک سیاست میں خدا ترسی و خدمت کا جذبہ پیدا نہیں ہو گا تب تک عام آدمی کو کوئی فائدہ نہیں مل سکتا، جب تک ایک سیاستدان یہ سوچ کر سیاست میں نہیں آئے گا کہ میں نے موجود وسائل کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنانا ہے تب تک سیاست صرف حصولِ اقتدار ہی کا وسیلہ بنی رہے گی پھر اس کا نظم چاہے جمہوری ہو یا ملوکی، معیار صرف ایک ہی ہے کہ آپ سیاست کو سمجھتے کیا ہیں کیا آپ کو اقتدار اور شہرت چاہئے یا آپ نے صرف اور صرف عوام کی خدمت کرنی ہے؟ اگر آپ سیاست کو اقتدار کا سب سے مضبوط حصول سمجھتے ہیں تو پھر آپ اقتدار کسی نہ کسی صورت ضرور حاصل کر لیں گے لیکن عوام کو آپ کی موجودگی کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا اسکے برعکس اگر آپ سیاست کو ایک خالص انسانی خدمت سمجھ کر اختیار کرتے ہیں تو پھر عین ممکن ہے کہ آپ ایک عام آدمی کے حالات کو یکسر بدل کر رکھ دیں، پس بہت ضروری ہے کہ اب ہم سیاست کو ایک نئی بنیاد فراہم کریں اور اْس بنیاد کا خوب پرچار کریں تاکہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ سے لیکر ایک گنوار تک ہر کوئی بآسانی سمجھ سکے کہ سیاست کوئی فراڈ یا اقتدار حاصل کرنے کا حربہ نہیں بلکہ ایک خالص انسانی خدمت ہے اور ہر وہ شخص جو انسانی خدمت کے جذبات سے لبریز ہے وہ آئے اور اپنے اس لازوال جذبہ کو بھرپور طریقے سے بروئے کار لائے، بی اے، ایم اے یا پی ایچ ڈی کرکے سیاست میں آنے سے کہیں بہتر ہے کہ انسان بن کر سیاست اختیار کی جائے اور بس اتنا کافی ہے کہ کوئی سیاستدان انسانیت کے جذبے سے سرشار ہے ورنہ آکسفورڈ اور کیمرج کے پڑھے ہوئے سیاست کی ایسی درگت بنا لیں گے کہ الامان والحفیظ۔