اس پس منظر میں ہندوستان پر ایک بدشگون خاموشی مسلط تھی۔
دولت خانے کے مطلاً زینے کے مرمریں سیڑھیوں کے کشمیری قالینوں پر حکیم ماہم اپنے بوڑھے سبک قدم رکھتے اور سیاہ ریشمی چغے کی گھیردار دامن لہراتے اترے۔ خواجہ سراؤں کی ننگی تلواروں کی صفوں کو چیرتے دیوان عام کی طرف چلے۔ سونے چاندی کے گرز سنبھالے ہوئے گرز برداروں نے اس کو راستہ دے دیا۔ دارا گلابوں کے چمن میں ٹہل رہا تھا۔ شیرازی کبوتروں کے پرے زرکار مرمریں نہر میں غسل کررہے تھے۔ پالتو افریقی شیروں کا جوڑا داہنے بائیں چل رہا تھا۔ حکیم ماہم تسلیم کو جھک گئے۔ شیروں کو برقندازوں نے سنبھال لیا۔ حکیم ماہم نے گزارش کی۔
تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 30 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’صاحب عالم کو مبارک ہو۔ طل اللہ نے آنکھیں کھولیں۔ تبسم فرمایا اور آپ کو باریاب کئے جانے کامژدہ دیا۔‘‘
دارا نے جواب میں گلے سے موتیوں کا ہار اُتار کر حکیم کی کانپتی ہتھیلوں کے پیالے میں ڈال دیا اور خود آداب شہزادگی کے خلاف تقریباً دوڑتا ہوا چلا۔ زمین بوس ہوتے ہوئے چیلوں، خادموں، خواجہ سراؤں اور حاجیوں کے سلامیوں سے بے نیاز دولت خانہ شاہی میں داخل ہوگیا۔ ظل اللہ اونچے تکیے سے پشت لگائے لیٹے تھے۔ ستے ہوئے چہرے سے نقاہت برس رہی تھی۔ سیاہ اطلس میں ملبوس بازوؤں پر جواہرنگار جوشن ڈھیلے ہوگئے تھے۔دو کنیزیں سونے کی طرح زردتلووں پر مخمل کی گدیوں سے جھانواں کررہی تھیں۔ جہاں آرا بستر شاہی کے برابر جڑاؤ مونڈھے پر بیٹھی شہنشاہ کے داہنے ہاتھ کی ہتھیلی سہلارہی تھی۔ شہنشاہ نے آنکھیں کھولیں تو دارا شاہی پلنگ کا طواف کررہا تھا۔ تبسم کی ہلکی دھندلی سی لکیروں پر رینگ گئی۔
دارا نے سرجھکایا تو جواہرات کے بوجھ سے کانپتا ہاتھ سر پر لرزتا رہا۔ پھر مغربی درکاگوہر نگار پردہ ہٹ گیا۔ پری پیکر اور ستارہ لباس کنیزوں کی قطار طلائی سرپوشوں سے ڈھکے ہوئے طباق سروں پر اُٹھائے ہوئے حاضر ہوئی۔ بادشاہ بیگم (جہاں آرا) نے دونوں ہاتھوں سے بادشاہ کا ہاتھ تھام لیا اور اشرفیوں، گنگا جمنی، پھولوں اور روپیوں سے بھرے ہوئے صدقے کے طباقوں سے چھلادیا۔ دارا نے خواجہ سرا فہیم کو گردن موڑ کر دیکھا اور حکم دیا۔
’’داروغہ چاندنی خانہ کو فرمان دو کہ آج کی رات چراغاں کیاجائے۔‘‘
دارا کی آواز مسرت اور جوش سے بھاری تھی۔ شہنشاہ نے شیریں ناگواری سے ابرو سمیٹ لئے اور آہستہ سے فراما۔
’’عجلت۔۔۔اس قدر عجلت۔۔۔‘‘
خوش گوار شام کا گلابی آنچل لہراتے ہی ’’چاندنی خانے‘‘ کا تمام کارخانہ حرکت میں آگیا۔ وہ ’’جھاڑ آتشیں پھولوں سے چمکنے لگے جن میں بیک وقت آٹھ آٹھ سو پیالے روشن ہوتے تھے۔ وہ فانوس فروزاں ہوگئے جن میں سینکڑوں شمعیں ایک ساتھ جلنے لگتی تھیں۔ روشنی کے گلاسوں، چوکیوں اور پھاٹکوں نے لال قلعے کے درودیوار میں دن کی دوپہر کو قید کردیا تھا۔ بہت سی کنیزیں حاضر تھیں۔ ان کے جسم روپہلے اور سنہرے غازے سے رنگے ہوئے تھے۔ سروں پر طشت جمے ہوئے تھے جن میں بھاری بھاری کا فوری شمعیں منور تھیں۔ اوپر اٹھے ہوئے داہنے ہاتھ کی ہتھیلی پر رکھی ہوئی طشتری میں شمع جل رہی تھی۔ بائیں ہاتھ کی ہتھیلی کمر کے پہلو میں تھی۔ اس پر بھی ایک شمع فروزاں تھی۔ جب صاحب عالم کی آمد کا غلغلہ ہوا تو یہ کنیزیں بے مثل رقاصاؤں کی طرح رقص کرتی ہوئی حضور میں آئیں۔
دارا ان کے قدموں کی چلت پھرت کو دیکھتا رہا۔ وہ بے محاباناچتی رہیں۔ پھر خواجہ سرا یا قوت سرخ ریشمی چغے کے کامدار دامنوں کو پھڑپھڑاتا ہوا کنیزوں کی قطاروں کو چیرتا حضورمیں آیا۔ جلدی جلدی کورنش کی رسم ادا کی اور سانس روک کر بولا ’’رائے رایاں، دیوان کل باریابی کی اجازت چاہتے ہیں۔‘‘
’’پیش کرو۔‘‘
وہ الٹے پیروں واپس ہوا۔ دارا کنیزوں کو رقص کرتا چھوڑ کر دیوان خاص کی طرف چلا۔ تخت طاؤس کا سامنا ہوتے ہی تسلیم کے لئے جھک گیا اور مؤدب قدموں سے چلتا ہوا اپنے سنہرے تخت پر بیٹھ گیا۔ شاہی گزبرداروں اور شمشیر زنوں کی جو جماعت دیوان خاص میں ہر وقت حاضر رہتی تھی اپنی جگہ مستعد ہوگئی۔ پہلو کی محراب سے وہ ترازو نظر آرہاتھا جو مغلوں کے انصاف کی علامت تھا۔ اس کے دونوں طرف شاہ جہاں کے وہ مشہور علم کھڑے تھے جن کے سبز پھریروں پر سورج بناتھا۔
گرزبرداروں کی دوہری قطاروں کے درمیان رائے رایاں آرہے تھے۔ بیچ میں تقسییم سفید داڑھی کانوں تک چڑھی ہوئی تھی۔ گوہر نگار م ندیل سے نکلے ہوئے چاندی کے گیسوں مونچھوں کی سفید نوکوں کے سامنے سہمے پڑے تھے۔ جواہرنگار پٹکے میں تلوار لگی تھی جو مخمل پوش سیڑھیوں سے ٹکرارہی تھی۔ رائے رایاں نے دارا کو تخت کے سامنے پہنچ کر کورنش اد اکی۔ ستونوں کے سامنے اور محرابوں کے نیچے ہجوم کئے ہوئے خدام کو دیکھا۔ دارا نے دیوان خاص کے مہتمم ذوالفقار بیگ کو ہاتھ کے اشارے سے تخلیے کا حکم دیا۔ پھر رائے رایاں نے ہاتھ باندھ کر گزارش کی۔
’’چنار کے قلعہ دار صولت بیگ کا بیٹا حشمت بیگ ہزار سواروں کے ساتھ دارالخلافت میں حاضر ہوا ہے۔ فوراً پیشی ہوئی۔ اس نے بیان دیا کہ شاہزادہ شجاع تاج پہن کر راج محل سے نکلا۔ راستے میں ممالک محروسہ کو زیرو زبر کرتا ہوا چنار کے قلعے میں داخل ہوا۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘
’’شہزادہ باغی ہوگیا ہے۔ اس نے تاج پہن کر خطبہ پڑھادیا اور سکہ۔۔۔‘‘
’’اور صولت بیگ؟‘‘
’’صولت بیگ بھاری توپ خانے اور پچاس ہزار سواروں کا مقابلہ نہ کرسکا۔‘‘
’’اور قلعہ حوالے کردیا۔‘‘
’’اب وہ آلہ آباد کی طرف حرکت کررہا ہے۔‘‘
رائے کے پا س کہنے کو کچھ نہ رہا اور دارا کو اس سے زیادہ سننے کی تاب تھی۔ وہ دیر تک اسی طرح دو زانوں بیٹھا سوچتا رہا۔ زانوں پر رکھے ہاتھوں کی انگلیاں حرکت کرتیں تو انگوٹھیاں تڑپ جاتیں۔ پھر رائے نے سنا۔
’’حاکم آلہ آباد کو لکھا جائے کہ آگے بڑھ کر تمام گھاٹوں اور راستوں کو بند کردے اور فیصلہ کن لڑائی کے لئے شاہی لشکر کا انتظار کرے۔‘‘
رائے نے سرجھکادیا۔
’’حشمت بیگ کو حراست میں لے لیا جائے۔ دربار میں باغی شاہزادے کے حاضر وکیلوں کو گرفتار کرلیا جائے۔‘‘
دارا نے ہاتھ مسند پر رکھ لئے۔ رایاں اس اشارے کو حکم جان کر واپس چلے گئے۔
تھوڑی دیر بعد دارا اُٹھا۔ بھاری بھاری قدم رکھتا نہر بہشت کے کنارے کنارے چلتا ہوا دولت خانہ خاص میں آگیا۔ طلائی دروازے کے پردے کے پاس کھڑی ہوئی کنیزیں اشارہ ملتے ہی آگے بڑھیں۔
’’بادشاہ بیگم!‘‘
جہاں آرا بیگم باہر نکلیں۔ جشن چراغاں میں شرکت کے لئے انہوں نے لباس فاخرہ پہنا تھا۔ گلابی قبا کے دامنوں، آستینوں اور شمسوں پر زمرد جڑے تھے۔ دوپٹے کے کناروں پر چھوٹے چھوٹے موتی ٹنکے تھے۔ چہرے پر رونق کا غازہ ملا تھا۔ ہونٹ تبسم سے سرخ تھے لیکن دارا کا چہرہ دیکھ کر چونک پڑیں اور اس کے ساتھ ساتھ چلتی ہوئی اس صحن میں آگئیں جہاں روشنیوں کا طوفان مدھم تھا اور نغموں کی آواز جھجکتی ہوئی آرہی تھی۔ دارا نے آہستہ آہستہ وہ خبر سنادی جسے سننے کے لئے تمام ہندوستان میں کوئی تیار نہ تھا۔(جاری ہے )
تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 32 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں