تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 32
جہاں آرا بیگم کے ساتھ دارا شکوہ بھی اندر داخل ہوا۔ شاہ جہاں کی بیمار نظروں نے دارا شکوہ بابا اور بیگم صاحب کے سوچتے ہوئے لمبے چہروں پر تردد اور پریشانی کی لرزتی پرچھائیاں دیکھ لیں۔ وہ اونچے تکیے پر سر رکھے نقاہت کے بوجھ سے دبے دراز تھے۔ سجور کی چادر سے نکلے ہوئے ہاتھ کو جنبش دی۔ بیگم صاحبہ آگے بڑھ کر گھٹنوں پر کھڑی ہوگئیں۔
یوٹیوب چینل سبسکرائب کرنے کیلئے یہاں کلک کریں
دارا اسی طرح شاہی پلنگ کے سنہرے پائے کے پاس کھڑا رہا۔ ظل سبحانی نے ابرو کے اشاروں سے سوالات کئے لیکن جوابات میں بیگم صاحب ان کے نحیف ہاتھ کو ہاتھوں میں لئے سہلاتی رہیں۔ حکم پر کنیزوں نے ان کے شانوں کو سہارا دے کر اُٹھایا۔ گردن کے نیچے ایک اور تکیہ لگا دیا۔ اب جہاں آراء کی نظروں نے دارا شکوہ کی اجازت لیی۔ شاہ جہاں نے تھرتھراتی آواز میں مغل شہنشاہ کی قاہرانہ جبروت کے ساتھ حکم دیا۔ جہاں آرا نے کنیزوں کو باہر نکال کر گوش گزار کیا۔
تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 31 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’بنگال سے پرچہ لگا ہے کہ شاہزادہ شجاع راج محل سے نکل کر چنار کے حلقے میں داخل ہوگیا ہے۔‘‘
’’شجاع؟‘‘
شہنشاہ کے بوڑھے چہرے کے خوابیدہ خطوط چونک کر بیدار ہوگئے۔ ابروپرشکن پڑگئی۔ کہنیاں مسند پر گاڑھ دیں اور بدلی ہوئی طاقتور آواز میں حکم دیا۔
’’تفصیل بیان کرو۔‘‘
جہاں آرا نے ایک بار پھر دارا کا رُخ دیکھا اور عرض کیا۔
’’شجاع نے راج محل میں تاج پہن لیا۔ خطبہ پڑا دیا۔ سکہ ڈھال لیا۔ امراء میں منصب تقسیم کئے اور چنار کے قلعے پر دھاوا کیا۔ قلعہ دار پچاس ہزار سواروں اور بھاری توپ خانے کا مقابلہ نہ کرسکا۔ قلعہ شاہزادہ شجاع۔۔۔‘‘
’’نہیں باغی نے لے لیا۔۔۔ شجاع کو شاہزادہ کہنا شہزادگی کی توہین ہے۔‘‘
آواز کی تندی ا ور غضب کے اظہار نے ان کو تھکا دیا تھا۔ وہ آنکھیں بند کئے لمبے لمبے سانس لے رہے تھے لیکن ذہن چاق و چوبند تھا۔ سیاسی بصیرت معاملے کی نزاکت سمجھ رہی تھی۔ دور اندیشی دیکھ رہی تھی کہ اورنگزیب کا بیٹا شجاع کی بیٹی سے منسوب ہے۔ اس تعلق نے دونوں شاہزادوں کو دارا کے خلاف متحد کردیا۔ مرادشاہ جہاں آباد سے دور اور دکن سے نزدیک ہے۔ قرین قیاس ہے کہ اورنگزیب کے اشارے ہی پر شجاع نے یہ حرکت کی ہو۔ ہوسکتاہے کہ اب مراد گجرات سے جنبش کرے اور جب دربار کی طاقت تقسیم ہوچکے تب اورنگزیب دکن سے خروج کرے۔
’’اور دکن؟‘‘
دارا اسے سوال ہوا۔
’’آخری پرچہ لگنے تک دکن اور گجرات میں امن تھا۔‘‘
دیر تک خاموشی طاری رہی پھر ارشاد ہوا۔
’’لشکر کو کمربندئی کا حکم دیا جائے اور صبح خاص سپہ سالاروں کو طلب کیا جائے۔‘‘
دارا نے سرجھکادیا۔
’’جاؤ وقت کم ہے اور کام زیادہ۔‘‘
ساری رات وزارت عظمیٰ کے دفاتر کھلے رہے۔ سوار اور پیادے دوڑتے رہے۔ توپ خانے کے کارخانے، ہتھیاروں کی گڑگڑاہٹ اور گھوڑوں کی ہنہناہٹ سے گونجتے رہے۔ تمام شہر نیم بیدار رہا۔ دروازوں کی آنکھیں اور دیواروں کے کان سب سرگوشیاں کرتے رہے۔
***
نماز فجر کے بعد داروغہ بیوتات حاضر ہوا۔ شہنشاہ نے ہفتوں کے بعد لباس فاخرہ زیب تن فرماکر جواہرات خاص پہنے۔ تاج شاہی سر پر رکھا اور دولت خانہ خاص کہ شہ نشین میں الماس کے تخت پر جلوس کیا۔ کمزوری کے باوجود آداب شہنشاہی کا لحاظ فرماتے ہوئے دوزانوں بیٹھ کر اونچی مسند سے پشت لگالی۔ گرزبردار، چیلے، خدام، خواجہ سرا، خاص بروار اور منصب دار اپنی اپنی جگہوں پر استادہ تھے۔ پھر دارا شکوہ باریاب ہوا۔ اس کے بعد شاہزادہ سلیمان شکوہ، مرزا مہاراجہ جے سنگھ اور دلیر خاں مجرے کو پیش ہوئے۔ نذریں قبول ہوئیں، خلعتیں عطا کی گئیں۔
تخت کے سامنے دست بستہ کھڑے ہوئے نوعمرو نوخیز شاہزادے (سلیمان شکوہ) پر نگاہ اُٹھی۔ اب بیماری بوڑھے شہنشاہ کے بجائے اس خرم کی آواز بلند تھی جس کے علم دیکھ کر ہی عہد جہانگیری کے بڑے بڑے باغیوں نے ہتھیار ڈال دئیے تھے۔
’’مابدولت نے باغیوں کی تعداد کو کبھی قابل اعتنا نہیں جانا۔ بائیسں ہزار لشکر شاہی کی قاہرانہ آمد کے غلغلہ سنتے ہیں، پچاس ہزار باغی میدان جنگ سے اس طرح نابود ہوجائیں گے جس طرح آندھی خس و خاشاک کو اُڑادیتی ہے۔ یہ مہم تم کو عطا کی گئی۔ شباب کے غضب اور خون میں ض شامل جلاوت سے کوئی ایسی حرکت سرزد نہ ہونا چاہیے جو مغل شاہزادوں کے شایان شان نہ ہو۔ امان مانگنے والوں اور ہتھیار ڈالنے والوں سے چشم پوشی کی جائے۔ بوڑھوں، بچوں اور عورتوں سے احتساب نہ کیا جائے۔ میدان جنگ میں مرزا راجہ اور خان کلاں دلیر خاں کے مشوروں کا حترام کیا جائے۔‘‘
شاہزادہ سلیمان جو گھٹنوں تک سرجھکائے ارشادات خسروی سماعت کررہا تھا۔ اب سیدھا کھڑا ہوگیا۔
’’مرزا راجہ؟‘‘
’’عالم پناہ‘‘
’’تم سلیمان شکوہ سپہ سالار لشکر کے اتالیق مقرر کئے جاتے ہو۔ حکم دیا جاتا ہے کہ اس بدنصیب باغی کو زندہ یا مردہ ہمارے حضور میں پیش کرو۔‘‘
مرزا را جہ گھٹنوں تک سرجھکائے سلام کرارہا تھا کہ دلیر خاں کو حکم ملا۔
’’خان کو سلیمان شکوہ کی رکاب میں دیا جاتا ہے۔‘‘
دلیر خاں نے سرجھکا کر تعمیل حکم کا اقرار کیا اور اشارہ پاتے ہی مرزا راجہ جے سنگھ کے ساتھ الٹے قدموں باہر نکل گیا۔ جب شاہزادہ سلیمان نے کورنش کے لئے سرجھکایا تو شہنشاہ نے قریب آنے کا حکم دیا اور نوجوان سپہ سالار کا سراپنے سینے سے لگالیا۔ محبت کا ایسا جوش ہوا کہ شہنشاہ کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے۔ وہ دیر تک اسے سینے لگائے رہے۔ پھر پیشانی پر بوسہ دیا، فاتحہ پڑھی اور آسمان کی طرف دونوں ہاتھ اُٹھا کر آنسوؤں سے بھیگی ہوئی آواز میں دعا دی۔
’’بار الہٰی اسے مظفرومنصور کر‘‘
دارا شکوہ اسی طرح دست بستہ کھڑا رہا۔ جب بیٹا آنکھوں سے اوجھل ہوگیا تو ظل سبحانی نے حکم دیا۔
’’جاؤلشکر کو اپنی موجودگی میں رخصت کرو۔‘‘(جاری ہے)
تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 33 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں