تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 33
وقت نے ہندوستان کی نئی تاریخ لکھنے کیلئے موسم گرماکا خلعت پہنا۔ دھوپ تیز اور ہوا گرم ہونے لگی۔ اطبائے شاہی نے ظل الہٰی کو تبدیل آب وہوا کا مشورہ دیا۔ شہنشاہ جو سیاسی افق پر بیمار نظریں جمائے تھا، ایک حد تک مطمئن تھا۔
یوٹیوب چینل سبسکرائب کرنے کیلئے یہاں کلک کریں
شاہزادہ سلیمان باغیوں کے فتوحات سابقہ کو شکار کرتاہوا مونگیر تک پہنچ چکا تھا اور کسی وقت یہ خوش آئندہ خبر آسکتی تھی کہ شجاع اپنے حلیفوں کے ساتھ زنجیریں پہنے شاہی لشکر کی حراست میں دارالخلافہ کی طرف کوچ کررہا ہے۔
اورنگزیب کی سرکوبی کے لئے مہاراجہ جسونت چالیس ہزار سوار اور توپ خانے لئے دریائے نربدا کے کنارے پہنچ چکا تھا۔ قاسم خاں مراد کی سرزنش کے واسطے گجرات کی حدود میں داخل ہوچکا تھا۔ کوئی گھڑی پہنچنے والی خبریں اظہار کررہی تھیں کہ دونوں باغی شہزادے میدان جنگ سے پہلے چرارہے ہیں اور نامہ وپیام کی ذریعہ اپنی آبرومحفوظ رکھنا چاہتے ہیں۔
جب نجومیوں نے مبارک ساعت کی جستجو کرلی تو میر سامان اور میر اسفار کو حکم ملا کہ شاہ جہاں آباد جانے کا انتظام کیا جائے۔
تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 32 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
25 اپریل 1658ء کے غریب ہوتے ہوئے آفتاب نے ایک بار پھر وہ جلیل الشان نظارہ دیکھا جو پھر کبھی اور کہیں دیکھنا نصیب نہ ہوا۔ سینکڑوں اونٹوں اور خچروں پر دوہرا ’’پیش خانہ‘‘ رخصت ہوچکا تھا۔ آہستہ خرام جمنا کی باادب لہروں پر شاہی بیڑہ اُتر چکا تھا۔ قلعہ معلی کے بالکل سامنے شہنشاہ کا یاقوتی بجرہ کھڑا تھا جس کا نام ’’عقاب سرخ‘‘ تھا۔ شکل ایسی تھی جیسے عقاب پانی میں تیررہا ہو۔ اس کا پیٹ بارہ گز لمبااور کم سے کم چار گز چوڑا تھا۔ اوپر سے نیچے تک یاقوت سے مرصع سنہرے پتھروں سے جڑا ہوا تھا۔ اندرونی حاشیوں پر زریں دستوں کے شمع دان اور کنول نصب تھے۔ بیرونی حاشیوں پر ملاحوں کی قطار سونے کے زیور، روپہلے کام کی سرخ قبائیں اور سرخ مندیلیں پہنے چاندی کے چپولئے کھڑی تھی۔ مذہب ستونوں پر استادہ سرخ زربفت کی چھت مرصع فانوسوں سے مزین تھی۔ اس کے آگے سونے چاندی کے ساتھ بجرے اور تھے جن پر آفتاب گیر، کوکبہ، چتر طوغ، طومان طوغ، ماہی مراتب، شیر مراتب اور شاہ جہانی علم کھڑا تھا جس پر سورج بنا تھا۔ عقاب سرخ کے گرد چھوٹی چھوٹی کشتیوں کا حلقہ تھا جو سونے چاندی کے ہاتھیوں، گھوڑوں، شیروں اور چیتوں کی صوورتوں سے آراستہ تھیں اور جن پرمنظور نظر والا شاہی، سیادل، گرز بردار چیلے اور خواجہ سرا ریشمی لباس اور سنہرے ہتھیار پہنے مستعد تھے۔ اس کے بعد سرخ پردوں سے آراستہ زرکار بجرہ بادشاہ بیگم جہاں آرا کا تھا۔ پھر دور تک دارا شکوہ اور شہزادیوں کے خاصان بارگاہ کی سواریوں کا سلسلہ پھیلا پڑا تھا۔ ان کے پیچھے ان گنت کشتیوں پر قورخانہ، جواہر خانہ بیوتات خانہ وغیرہ کتنے ہی ’’کارخانہ جات‘‘ کھڑے تھے۔ اب دس ہزار آزمودہ کار محافظوں کی کشتیوں اور ڈونگیوں کا زنجیر تھا جو سکندرہ کی حدود تک پھیلا ہوا تھا۔
جمنا کے داہنے کنارے پر رستم خاں فیروز جنگ پندرہ ہزار سواروں کے ساتھ دردو مسعود کا منتظر تھا۔ بائیں کنارے پر امیر الامراء نواب خلیل اللہ خاں پندرہ ہزار تلواریں لئے ہمرکابی کا حکم نامہ پہنے موجود تھا۔ دور روضہ مبارک (تاج محل) کے نیچے امیر البحر جلالت خان اور میر آتش رعدانداز خان کے کارخانے کھلے پڑے تھے جو افق تک پھیلتے چلے گئے تھے۔
توپیں داغنے لگیں، نقارے گرجنے لگے۔ پھر ’’ہوادار‘‘ پر شہنشاہ طلوع ہوا۔ جلومیں دارا شکوہ بابا اور ’’امرائے نامدار‘‘ و ’’راجگان جلاوت آثار‘‘ ہجوم کئے ہوئے تھے۔ ’’عقاب زریں‘‘ پر نزول فرماتے ہی مرصع اونٹوں پر رکھے ہوئے نقارے گرجنے لگے اور نوبتیں بجنے لگیں۔
دارا کے ہاتھ کی جنبش نے سواروں کو گھوڑوں کی پیٹھ پر پہنچادیا۔ بلندیوں اور درختوں پر چڑھی ہوئی خلقت نے ایک جلوہ، ایک درشن پاتے ہی اپنے نعروں سے آسمان سر پر اُٹھالیا۔ جمنا کی لہروں اور دونوں کناروں پر روشنیوں کا سمندر موجیں ماررہا تھا۔ پورا اکبر آباد اس نظارے سے آنکھیں سیراب کرنے کے لئے میلوں تک کھینچا چلا آیا تھا۔(جاری ہے )
تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... قسط نمبر 34 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں