پاکستان اور درپیش چیلنجز
لاہور سے معروف دانشور اور کالم نگار خالد محمود رسول ملتان آئے تو میں نے دوستوں کی ایک نشست کا اپنے ہاں اہتمام کیا، مقصد یہ تھا ادب، سیاست اور سماج کے حوالے سے کچھ خیالات کا تبادلہ کیا جائے،اِس نشست میں ممتاز صحافی اور روزنامہ”پاکستان“ کے گروپ جوائنٹ ایڈیٹر شوکت اشفاق، کالم نگار اظہر سلیم مجوکہ، شاکر حسین شاکر، ایمرسن یونیورسٹی شعبہ اردو کے سربراہ ڈاکٹر سجاد نعیم، نقاد و سابق پرنسپل ڈاکٹر ابرار احمد آبی اور چلڈرن کمپلیکس ہسپتال ملتان کے شعبہ تھیلیسیمیا کے سربراہ ڈاکٹر ذوالفقار علی رانا شامل تھے۔پاکستان اِس وقت جس بحران سے گذر رہا ہے، کوئی نظریں چرانا بھی چاہے تو نہیں چرا سکتا، جس دن یہ نشست ہو رہی تھی،اُسی شام کو یہ خبریں آ گئیں کہ موٹرویز کو بند کر دیا گیا ہے۔ خالد محمود رسول کو یہ فکر لاحق ہوئی کہ لاہور واپسی کا سفر کیسے ہو گا،اُنہیں بتایا گیا موٹروے کے علاوہ بھی لاہور جانے کے دیگر راستے ہیں،فکر کی کوئی ضرورت نہیں، اِسی پر یہ نکتہ زیر بحث آیا کہ سیاست میں جو یہ کلچر آ گیا ہے، اُس کے ملکی معیشت پر کیا اثرات ہوں گے۔ خالد محمود رسول نے کہا 1947ء سے لے کر آج تک ہم نے جو بیج بوئے ہیں، آج اُن کی فصل کاٹ رہے ہیں، سیاسی استحکام کے لئے اِس ملک میں کبھی سنجیدہ کوششیں کی ہی نہیں گئیں، بلکہ یہ کہنا مناسب ہو گا سیاسی استحکام کبھی آنے ہی نہیں دیا گیا،جہاں کہیں یہ شائبہ ہوا سیاسی و جمہوری قوتیں مضبوط ہو سکتی ہیں، شب خون مار کر سب کچھ تتر بتر کر دیا گیا،قیام پاکستان کے وقت مغربی و مشرقی پاکستان کی بنیاد پر ایک ملک کو نظریاتی طور پر تو بنا دیا گیا، مگر جمہوری لحاظ سے اس حقیقت کو تسلیم نہ کیا گیا، بنگالیوں کو کبھی اکثریتی صوبے کا درجہ نہ دے کر سابق مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والی لیڈر شپ کو کبھی نظرانداز اور کبھی بے دخلی کا شکار کر کے ہم نے گویا یہ واضح پیغام دے دیا تھا۔یہ ہزار کلو میٹر فاصلے کا بندوبست نہیں چل سکتا۔ 1970ء کے انتخابات میں عوامی لیگ کی اکثریت کو تسلیم نہ کر کے گویا سب ابہام دور کر دیئے کہ بنگالی اکثریت میں ہونے کے باوجود اتنی اہمیت نہیں رکھتے کہ انہیں متحدہ پاکستان کا اقتدار سونپا جائے، صرف 24 سال بعد پاکستان دو لخت ہو گیا۔یہ ایک بہت بڑا سانحہ ہی نہیں بہت بڑا سبق بھی تھا،مگر کسی نے اس سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا اس سانحے کے بعد پاکستان کو ایک مضبوط، ترقی پسند، جمہوری اور خوشحال پاکستان بنانے پر توجہ دی جاتی، اس کی بجائے یہاں پاور پالیٹکس کا دور شروع ہو گیا۔ سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد بھی ہم نے دو مارشل لاء لگائے اور استحکام سے مزید دور ہوتے چلے گئے۔ خالد محمود رسول کی اِس گفتگو کے د وران شوکت اشفاق نے یہ سوال اُٹھایا کہ اِس سارے عمل میں ہماری سیاسی ایلیٹ نے کیا کردار ادا کیا،کیوں خود کو مضبوط بنا کر جمہوری اداروں کو مستحکم کرنے پر توجہ نہیں دی،ایسا کیوں ہوا کہ بار بار سیاسی قوتوں اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان اس نکتے پر اتفاق پیدا ہوتا رہا جمہوری اداروں کو مضبوط نہیں ہونے دینا اور آئین کی بالادستی کے تصور کو کمزور کرنا ہے۔شوکت اشفاق کے یہ سوالات بہت اہم اور اصل مرض کی طرف نشاندہی کرتے نظر آتے ہیں جن پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
میں نے اپنی رائے دیتے ہوئے کہا ایک تو قائداعظمؒ جلد دنیا سے رخصت ہو گئے۔دوسرا اُن کے بعد جو قیادت تھی اُسے کام کرنے کا موقع ہی نہیں دیا گیا۔نوبزادہ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد گویا قیاد ت کا ایک واضح خلاء پیدا ہو گیا۔دوسری طرف متفقہ آئین بھی موجود نہیں تھا جس کی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ کی بالادستی قائم ہوتی چلی گئی۔ ایوب خان نے جب اقتدار سنبھالا تو اُن کے سامنے کسی قسم کی مزاحمت یا کوئی بڑا چیلنج موجود نہیں تھا۔ سیاسی قیادت میں اتنی سکت نہیں تھی کہ اس غیر جمہوری اقتدار کے خلاف آواز اُٹھا سکے۔ سو ایک عرصے تک غیر جمہوری اقتدار کا سلسلہ چلتا رہا، اِس دوران ایوب خان نے نت نئے تجربے کئے۔بنیادی جمہوریت کا نظام لے آئے جس نے ملک میں وحدت کی بجائے تقسیم کو جنم دیا۔ محترمہ فاطمہ جناحؒ کے ذریعے جمہوریت کو منوانے کی جو کوشش کی گئی وہ بھی اسٹیبلشمنٹ نے ناکام بنا دی۔یوں پاکستان ایک ایسی تجربہ گاہ بن گیا، جس میں مختلف النوع کے تجربات کا سلسلہ جاری رہا۔ایوب خان کے خلاف تحریک چلی تو وہ اقتدار ایک دوسرے ڈکٹیٹر یحییٰ خان کو سونپ کر چلے گئے۔یحییٰ خان ایک ملٹری آمر تھے اُن کی ایوب خان جیسی گرفت نہیں تھی،دباؤ بڑھنے پر انہوں نے قومی انتخابات کرانے کا اعلان کر دیا۔اُس وقت دو رہنما ذوالفقار علی بھٹو اور شیخ مجیب الرحمن مشرق و مغرب کے دونوں حصوں میں بڑی عوامی آواز بن چکے تھے۔ بلاشبہ1970ء کے انتخابات بہت شفاف ہوئے،اسٹیبلشمنٹ نے کسی کو جتوانے کی کوشش نہیں کی تاہم انتخابات کے بعد جس طرح عوام کے مینڈیٹ کو تسلیم نہیں کیا گیا اور دونوں صوبوں کی سیاست تقسیم ہو گئی،اُس نے ملک کو دو ٹکڑے ہونے کی راہ پر ڈال دیا۔وہ دن جائے اور آج کا آئے پاکستان میں سیاست یرغمال بنی ہوئی ہے۔اِس دوران بھٹو کو پھانسی ہوئی،بے نظیر بھٹو شہید کر دی گئیں، نواز شریف کو جلاوطنی کا سامنا کرنا پڑا اور عمران خان آج اسیری کے دن گزار رہے ہیں۔ ایک مضبوط اور نمائندہ سیاسی نظام نہ ہونے کی وجہ سے ہم نت نئے مسائل کی فصلیں اُگا چکے ہیں۔آج بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں بدامنی،دہشت گردی اور علیحدگی پسندی کے رجحانات عروج پر ہیں،سیاسی قوتیں یکسر تقسیم اور صرف اقتدار کو ایجنڈا بنا کر سیاست کر رہی ہیں۔
یہاں سے خالد محمود رسول نے ایک نکتے کی طرف توجہ مبذول کرائی۔اُن کا کہنا تھا اب ایک سوشہ اکنامک مسئلہ بھی سر اُبھار رہا ہے۔پنجاب میں اقتصادی محاذ پر پنجابیوں کی بجائے دیگر صوبوں سے آنے والوں کی اجارہ داری قائم ہو رہی ہے۔بڑے شہروں جن میں لاہور،ملتان، راولپنڈی، گوجرانوالہ اور فیصل آباد ہیں وہاں کی اقتصادی سرگرمیوں پر دیگر صوبوں کے سرمایہ داروں کی اجارہ داری قائم ہو رہی ہے۔ایک توازن تھا جو اب بگڑرہا ہے یہ آگے چل کر کیا اثرات مرتب کرے گا اس پر آج ہی بات ہونی چاہئے،مگر ہمارے مقتدر طبقے کے پاس اِس پہلو پر توجہ دینے کی فرصت نہیں ہے، جب یہ مسئلہ گمبھیر شکل اختیارکر لے گا تو ہم اس کا حل ڈھونڈتے رہ جائیں گے، جو کسی کے پاس نہیں ہو گا۔ ڈاکٹر سجاد نعیم کا خیال تھا اِس ایشو پر گفتگو ہونی چاہئے، اسمبلیوں کے ایوانوں میں، یونیورسٹیوں اور تھنک ٹینک کے اداروں میں بھی۔ شاکر حسین شاکر نے کہا پنجاب کے سوشل و سیاسی اعشاریے تیزی سے بدل رہے ہیں ان پر نظر رکھنی ہو گی،کیونکہ توازن کو بگڑنے سے نہ روکا گیا تو مقامی و غیر مقامی کی تقسیم شدید بحران پیدا کرے گی۔یہ دوستوں کی فکری نشست اگرچہ خالد محمود رسول کی آمد پر غیررسمی انداز میں مرتب کی گئی تھی تاہم اِس میں گذرا وقت اِس لحاظ سے بہت قیمتی تھا کہ شرکاء نے پاکستان کے بارے میں سوچا اور اپنے خیالات کا حب الوطنی کے جذبے سے اظہار کیا۔
٭٭٭٭٭