معیشت سنبھل گئی،آئی ایم ایف بھی حیران،وزیرِ خزانہ
وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ ”معیشت سنبھل گئی،آئی ایم ایف بھی حیران“کیونکہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جب تک آئی ایم ایف اِس ملک کے سر پر سوار ہے اِس کی معیشت کیسے سنبھل سکتی ہے کیونکہ اِس کے لچھن ہی ایسے ہیں چنانچہ اِس جھوٹ کا پردہ چاک کرنے کے لیے اُس نے اپنے طور پر ایک کمیشن بھی قائم کر دیا ہے اور ہو سکتا ہے چند دن بعد میں بھی یہ بیان واپس لے لوں کیونکہ سچ آخر ایک دن سامنے آ بھی جانا ہے جبکہ ویسے بھی ہم نے عوام کو اِ ن فرضی باتوں سے خوش رکھا ہُوا ہے جبکہ حقائق اُن کے بالکل ہی برعکس ہو تے ہیں نیز مارکیٹ کی صورتحال بھی یہ ہے کہ جو چیز سستی ہوتی ہے تو کوئی اور چیزیں مہنگی ہو جاتی ہیں اور عوام کا ایک ساتھ خوش اور غمگین ہونا لگاہُوا ہے جبکہ عوام بھی ہماری اِس بیان بازی سے اچھی طرح سے عادی ہو چکے ہیں چنانچہ ہماری گاڑی بھی پُوری رفتار سے چل رہی ہے اور عوام کی بھی،اگرچہ دونوں گاڑیا ں دھکا سٹارٹ ہیں اور اُ س وقت تک ہی رواں رہتی ہیں جب تک دھکے کا اثر قائم رہتا ہے کیونکہ دھکابھی خاص طور پر کمزور اور نا تواں ہی رہتا ہے،اور یہ مسلسل اسی طرح رہے گا کیونکہ اِس کے پیچھے طاقت ہی اتنی ہوتی ہے،آپ اگلے روز اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
نواز شریف کے بیٹے حسن نواز برطانیہ میں دیوالیہ قرار۔ایک خبر
میڈیا میں شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق ”نواز شریف کے بیٹے حسن نوا ز برطانیہ میں دیوالیہ قرار پا چکے ہیں“کیونکہ ایسا لگتا ہے کہ ساری نیک کمائیاں بالآخر ختم ہو گئی ہیں اگرچہ اصل حقیقت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ کسی بڑ ے ادارے سے بہت سارا قرض لے کر او ر اُسے ہضم کرنے کے لیے خو د کو دیوالیہ قرار دے کر اسکی ادائی سے بچ گئے ہوں جیسے کہ امریکی صدر ڈونل ٹرمپ اِس طریقہئ کار سے کئی بار دیوالیہ ہو کر اِسے ہضم کر چکے ہیں اِس لیے مذکورہ مالی ادارے کے قلّاش ہونے کے امکانات زیاد ہ ہیں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اِس طریقہئ کار کوبا ر بار آزمایا جائے جو سیاست کیلئے پہلے ہی بہت کار آمد اور مفید ثابت ہو چکا ہے اور دراصل یہ مزید امیرہونے کا ایک طریقہ ہے جسے نہایت کامیابی سے اختیا ر کیا جاتا ہے اور ساتھ سا تھ اپنی غربت کا رونا بھی رویا جاتا ہے اور اندر خانے اثاثوں میں بھی اضافہ ہوتا رہتا ہے چنانچہ اِس پر کسی کو زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اِس خاندان نے گھاٹے کا سودا کبھی نہیں کیا اور ہر کام میں ہمیشہ ہی منافع حاصل کرنے میں یہ لوگ یدِ طُولیٰ رکھتے ہیں اِس لیے اِس صورتحال پر فکر مند ہونے کی بجائے مطمئن اور خوش ہونے کی ضرورت ہے۔اللہ اللہ خیر صلّا بلکہ اُمید ہے کہ آئندہ بھی میڈیا میں اسی طرح کی خبریں شائع ہوتی رہیں گی۔
حکومت ہر قدم پرعام آدمی کے ساتھ کھڑی ہے،بلاول بھٹو
چیئر مین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ”حکومت ہر قدم پر عام آدمی کے ساتھ کھڑی ہے“اور عام آدمی کی حالت اسی لیے نہیں بدل سکی کہ چونکہ حکومت ہر وقت کھڑی رہتی تھی،عام آدمی کو بھی ہر وقت کھڑا رہنا پڑتا تھا او ر وہ ایک قدم بھی آگے پیچھے نہیں جا سکتے تھے جبکہ حکومت کھڑے کھڑے ہی سارے کام کر لیا کرتی تھی اور اُس کے اثاثوں میں اضافہ ہوتارہتا تھا اور عام آدمی یہ دیکھ کر حیران او ر پریشان ہُوا کرتا تھا چنانچہ اسی حالت میں ہماری دولت میں اضافہ ہوتا گیا اور عام آدمی کی حیرانی اور پریشانی میں بھی،اور اِس کی حالت وہ ہوگئی جو سب کو اچھی طرح نظر بھی آرہی ہے حتیٰ کہ عام آدمی کو اِس کی عادت بھی پڑ گئی ہے اور وہ خود بھی یہی چاہتا ہے کہ حکومت ہر قدم پر اِس کے ساتھ کھڑی رہے اور اسی طرح اپنی جائیدادوں میں اضافہ کرتی رہے اور بالآخر یہ سمجھنے لگ گئی ہے کہ اُس کی اپنی جائیدادوں میں اضافہ ہو رہا ہے اور وہ خود غریب سے امیر ہو رہا ہے اور اِس طرح حکومت کی گاڑی بھی چل رہی ہے اور عام آدمی کی بھی اور دونوں گاڑیا ں تیز رفتاری کے ساتھ اُمید ہے کہ چلتی رہیں گی اور بالآخر اپنی اپنی منزل پر پہنچ کر ہی دم لیں گی۔آپ اگلے روز کراچی میں فیصل کریم کُنڈی اور مرتضیٰ وہاب سے گفتگو کر رہے تھے۔
مسز روز ویلٹ
ایک شخص کہیں جا رہا تھا کہ اُس نے دیکھا کہ فرسٹ لیڈی مسز رو ز ویلٹ سڑک کے کنارے کھڑی ہیں اور سڑک پار کرنا چاہتی ہے جبکہ بے ہنگم ٹریفک کی وجہ سے ایسا نہیں کر پا رہیں،چنانچہ اُس نے اُنہیں ساتھ لیا اور سڑک کے دوسری طرف پہنچا دیا جس کے بعد وہ شخص آگے بڑھ گیا اور جب تک وہ نظر آتا رہا مسز روز ویلٹ اُس کی طرف دیکھتی رہیں اور اُس کے بعد وہ واپس آکر اُسی جگہ کھڑی ہو گئیں جہاں سے اُنہیں سڑک پار کروائی گئی تھی۔
اور اب آخر میں اوکاڑہ سے افتخار احمد کی یہ غزل
یہ جو اک رنج کی ارزانی ہے
یہ فقیری ہے کہ سلطانی ہے
ہر کوئی قیس بنا پھرتا ہے
عشق میں اتنی ہی آسانی ہے
اُس کا آئینہ بناتے کیوں کر
جس کی تقدیر میں حیرانی ہے
پھیل جائے نہ ترے سینے تک
گوشہئ دل میں جو ویرانی ہے
دونوں تمثیل ہیں سسکاری کی
نوحہ خوانی کہ غزل خوانی ہے
دشت ٹھہرا ہے مری آنکھوں میں
اور لگتا ہے رواں پانی ہے
وقت تھوڑا ہے مہ وانجم کا
مرا قصہ بڑا طُولانی ہے
ہوک ایسی بھی دبی ہے د ل میں
جو ترا عرش ہلا جانی ہے
آپ کہتے ہیں خموشی جس کو
بے زبانوں کی زباں دانی ہے
تیری آسانی پہ کب مشکل تھی
میری مشکل میں جو آسانی ہے
آج کامطلع
ظفر یہ وقت ہی بتلائے گا کہ آخر ہم
بگاڑتے ہیں زباں یا زباں بناتے ہیں