پاکستان ایسا بھی تھا
عالمی مالیاتی فنڈ یعنی آئی ایم ایف نے ورلڈ اکنامک آؤٹ لُک رپورٹ2024ء جاری کی ہے جس میں پاکستان میں مہنگائی اور بے روزگاری میں کمی کی پیش گوئی کی گئی ہے، ایسے دلاسے ہمارے حکمران بھی دلاتے رہتے ہیں لیکن پتا نہیں کیوں عوام کو یقین نہیں آتا۔ وجہ کیا ہے اس کا ذکر آخر میں، ویسے بھی یہ ایک قدرتی عمل اور امر ہے کہ جب کوئی فرد یا گروہ (آپ اسے قوم بھی تصور کر سکتے ہیں) طویل عرصہ تک ایک ہی حالت میں رہے یا رکھی جائے‘ یعنی اسے طفل تسلیاں دی جاتی رہی ہوں اور خالی خولی وعدوں پر ٹرخایا جاتا رہا ہو تو کسی تبدیلی کا کم ہی یقین آتا ہے۔ ہمارے ملکی و غیر ملکی قرضے جن کا حجم اتنا بڑھ چکا ہے کہ سٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق اس وقت پاکستان کا ہر شہری مع ہر نومولود 3 لاکھ روپے کا مقروض ہے۔
کل جب یہ خبر نظر سے گزری کہ وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگ زیب نے کہا ہے کہ چین نے توانائی کے شعبے کے قرضوں کی ری پروفائلنگ کی (پاکستان کی) درخواست پر حوصلہ افزا جواب دیا ہے تو لا محالہ یہ یاد آ گیا کہ پاکستان نے جس چین سے قرضوں کی ری پروفائلنگ کی بات کی ہے‘ ایک زمانے میں اس کا اپنا حال یہ تھا کہ کھانے کو روٹی اور پہننے کو کپڑا نہ تھا۔ 1990ء تک چین کی 75 کروڑ آبادی غربت کی بین الاقوامی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہی تھی‘ جو اس کی کل آبادی کا دو تہائی حصہ تھا۔ 2012ء تک یہ تعداد نو کروڑ تک آ گئی تھی یعنی 23 برس میں 66 کروڑ عوام کو غربت کی دلدل سے نکالا گیا تھا۔ تب یعنی 2012ء میں صدر شی جن پنگ نے اعلان کیا تھا کہ اگلے 9 برسوں میں ان 9 کروڑ آبادی کو بھی خطِ افلاس سے اوپر کھینچ لیا جائے گا۔ 2016ء تک یہ تعداد 72 لاکھ ہو گئی تھی یعنی اگلے 4 برسوں میں مزید 8 کروڑ سے زیادہ آبادی کو آسودہ حال بنا لیا گیا تھا جو کل آبادی کا صفر اعشاریہ پانچ فیصد بنتا ہے۔
یاد رہے کہ چین میں غربت کا معیار وہ نہیں جو عالمی سطح پر طے کیا گیا ہے بلکہ چین نے اپنی آبادی کے لیے غربت کا معیار عالمی معیار سے بلند تر رکھا ہے۔ چین میں ایسے شخص کو غریب قرار دیا جاتا ہے جو دیہی علاقے میں رہتا ہو اور روزانہ 2.30 ڈالر سے کم کماتا ہو۔ یہ معیار 2010ء میں طے کیا گیا تھا اور اس میں آمدنی کے علاوہ طرزِ رہائش‘ طبی سہولیات اور تعلیم تک رسائی جیسے عوامل کو بھی پیشِ نظر رکھا گیا تھا۔ ورلڈ بینک کی جانب سے غربت کا معیار روزانہ 1.90 ڈالر سے کم آمدنی کو مقرر کیا گیا ہے یعنی جو شخص روزانہ 1.90 ڈالر یا اس سے کم کماتا ہے وہ غریب کہلائے گا۔
انیسویں صدی میں چین اپنا پیدا کردہ ریشم اور مصالحہ جات چاندی کے عوض سپین‘ برطانیہ اور امریکہ کی منڈیوں میں فروخت کرتا تھا۔ تب تجارت کا توازن چین کے حق میں تھا اور چین ایک متوسط طرزِ زندگی والا ملک تھا۔ برطانیہ نے ہندوستان پر قبضہ کیا تو ایسٹ انڈیا کمپنی کو ہندوستان سے ہر سال افیون کی وسیع پیدوار حاصل ہونے لگی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب برطانیہ ایک عالمی طاقت تھا،اب افیون کو کہیں تو کھپانا تھا۔ اس کے لیے اس کی نظر چین پر پڑی جو تب تک داخلی انتشار کی وجہ سے اندرونی طور پر خاصا کمزور ہو چکا تھا۔ اس نے چین کو مجبور کیا کہ وہ چاندی کے بدلے افیون خریدے لیکن چین میں حکمران بادشاہ اپنی قوم کو اس نشہ سے بچانا چاہتا تھا۔ اس نے افیون بیچنے کے کاروبار کو ممنوع قرار دے دیا اور تجارت کے لیے برابری والی شرائط رکھیں۔ اس کے نتیجے میں چین میں پہلی اور پھر دوسری افیون کی جنگیں ہوئیں۔ برطانیہ کی جدید طرز کی توپوں نے چین کی خوش حال شہنشاہیت کو شکست دے دی۔ شکست خوردہ چین کو ریشم کے بدلے افیون قبول کرنا پڑی۔
بہرحال 1990ء کی دہائی میں شروع کی گئی کوششوں کے مثبت نتائج آنا شروع ہوئے۔ اس مقصد کے لیے گزشتہ چالیس برس کے دوران چین نے منڈی میں انتہائی اہم اصلاحات کو سلسلہ وار متعارف کروایا‘ جس سے تجارتی راستے ہموار ہوئے اور سرمایہ کاری آئی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کروڑوں لوگ غربت کی دلدل سے نکل آئے۔ پھر فروری 2021ء میں یہ خبر سامنے آئی کہ چین کے صدر شی جن پنگ نے کہا ہے کہ انہوں نے 2012ء میں عہدہ سنبھالنے پر 10 کروڑ لوگوں کو غربت سے نکالنے کا جو عزم کیا تھا، وہ اب پورا ہو گیا ہے۔
اس کے برعکس ایک پاکستان وہ تھا 1950ء کی دہائی میں جس نے جرمنی کو 5 کروڑ روپے قرضہ دیا تھا۔ جس نے ایک زمانے میں پولینڈ کے متاثرین کو پناہ دی تھی اور ان کی مالی مدد کی تھی۔ وہی پاکستان جس نے اپنے حال میں مگن چین کا بیرونی دنیا سے رابطہ کرایا تھا۔ وہی پاکستان جس کے پانچ سالہ منصوبوں کو لے کر جنوبی کوریا نے اپنے لیے ترقی کی راہ ہموار کی تھی۔ وہی پاکستان جس کی قومی ایئر لائن نے دنیا کی کئی ایئر لائنز کو اڑنا سکھایا تھا۔ وہی پاکستان 1990ء کی دہائی تک بھارت جس سے بجلی خریدتا رہا تھا۔ وہی پاکستان جس نے 1957ء میں غربت اور بھوک کے مارے جاپان کو چاولوں سے بھرا ایک پورا بحری جہاز بھجوایا تھا۔
سوال یہ ہے کہ حالات نے ایسا پلٹا کب‘ کیسے اور کیوں کھایا کہ جو ہم تھے وہ دوسرے ہو گئے اور جو دوسرے تھے وہ ہم بن گئے۔ ان سارے سوالوں کا ایک ہی جواب ہے کہ ہماری ماضی کی قیادت وقت کی نبض پر ہاتھ نہ رکھ سکی‘ مناسب وقت پر مناسب فیصلے نہ کر سکی جبکہ باقی قوموں کی قیادت نے بروقت اور برمحل فیصلے کیے۔ وہ کامیاب ٹھہرے اور ہم ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے۔ مسئلہ یہ ہے ہم اور ہمارے حکمران چین کی مثالیں تو بہت دیتے ہیں‘ ان مثالوں سے کچھ سیکھنے اور آگے بڑھنے کی باتیں بھی بہت کرتے ہیں لیکن اس سلسلے میں عملی طور پر کچھ کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ یہی وہ وجہ ہے جو عوام کو قومی قیادت کے دعووں پر یقین کرنے سے روکتی ہے۔