نئے چیف جسٹس کا تقرر،اُمید ِ بہار رکھ

   نئے چیف جسٹس کا تقرر،اُمید ِ بہار رکھ
   نئے چیف جسٹس کا تقرر،اُمید ِ بہار رکھ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 آئینی ترامیم کا اونٹ کسی کروٹ بیٹھا ہے تو دھند چھٹنے لگی ہے کچھ نئے چیلنجز در پیش ہیں تو کچھ حل بھی ہوئے ہیں۔ پاکستان جس نہج پر پہنچ گیا ہے یا پہنچا دیا گیا ہے،اُس میں تو ممکن نہیں کہ بٹن دبا کے سب مسائل کو حل کر لیا جائے۔ تاہم بہتری کی اُمید رکھ کر آگے ضرور بڑھا جا سکتا ہے سب سے اہم مرحلہ جو ہونے جا رہا ہے وہ چیف جسٹس آف پاکستان کی تقرری ہے۔ پچھلے کئی ماہ سے جاری سیاست بھی اس نکتے کے گرد گھونے لگی تھی چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو توسیع دی جا رہی ہے یا وہ وقت مقررہ پر سبکدوش ہو جائیں گے۔کسی چیف جسٹس کی ماضی میں سبکدوشی کی تاریخ اتنی مشہور نہیں ہوئی،جتنی قاضی فائز عیسیٰ کی ہوئی۔ 25 اکتوبر ایک ایسا دن بن گیا جو سیاست کے ایوانوں، جلسوں اور ٹاک شوز میں اپنا رنگ جماتا رہا۔ اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ نئے چیف جسٹس کا نوٹیفکیشن نہیں ہو رہا تھا، حالانکہ ماضی کی روایات کے مطابق مہینہ دو مہینہ پہلے اگلے چیف جسٹس کا اعلان ہو جاتا تھا، کیونکہ26ویں ترمیم منظور ہونے سے پہلے سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی تقرری کے لئے سنیارٹی کا اصول رائج تھا اور سب کو معلوم تھا کہ اگلا چیف جسٹس کون ہو گا۔ 26ویں آئینی ترمیم نہ ہوتی تو اگلے چیف جسٹس منصور علی شاہ ہوتے تاہم جس طرح آخر وقت میں ان کے نوٹیفکیشن سے اجتناب کیا جا رہا تھا اُس سے افواہیں ضرور جنم لے رہی تھیں کہ شاید منصور علی شاہ کے نام قرعہ فال نہ نکلے۔26ویں آئینی ترامیم کے لئے جس کو  ساری رات لگا کر اسے منظور کرایا گیا، اس سے بھی یہی لگتا ہے کہ جلدی صرف اِسی وجہ سے تھی کہ 25اکتوبر کو جب فائز عیسیٰ ریٹائر ہوں تو روایت اور رولز کے مطابق جسٹس منصور علی شاہ چیف جسٹس کا منصب نہ سنبھال سکیں۔ اب لوگ ٹھیک تبصرے کر رہے ہیں کہ یہ ترامیم چیف جسٹس منصور علی شاہ کا کمبل چرانے کے لئے کی گئی ہیں۔نئی ترمیم کے مطابق سپریم کورٹ کے تین سینئر ججوں میں سے پاریمانی کمیٹی کے ذریعے چیف جسٹس کی نامزدگی کا  پراسیس سرعت سے مکمل کیا گیا، وزیراعظم اور صدرِ مملکت  نے منظوری بھی دیدی اور نوٹیفکیشن بھی جاری ہو گیا، جس کے مطابق جسٹس یحییٰ آفریدی جو سنیارٹی میں تیسرے  تھے، چیف جسٹس بنا دیئے گئے۔ اچھی بات ہے کہ انہیں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس منصور علی شاہ نے مبارکباد دی ہے۔اب وہ 26 اکتوبر کو سب سے بڑی عدالت کے سربراہ کا حلف اٹھائیں گے اور ان کا عہد منصبی شروع ہو جائے گا۔ جسٹس یحییٰ آفریدی کی عمر 59 سال ہے اور وہ نئے قانون کے مطابق تین سال کے لئے چیف جسٹس بنائے گئے ہیں اُن کی مدت ملازمت تو چھ سال پڑی ہے، تاہم چیف جسٹس بننے کے بعد وہ تین سال گزار کے نہ صرف چیف جسٹس کے منصب بلکہ مدتِ ملازمت سے بھی دستبردار ہو جائیں گے۔ تاوقتیکہ انہیں کسی ترمیم کے بعد توسیع نہ دی جائے۔

جسٹس یحییٰ آفریدی اِس حوالے سے بھی پہلے چیف جسٹس ہوں گے کہ انہیں 26ویں آئینی ترمیم کے بعد چیف جسٹس کے انتخاب کی کسوٹی سے گزرنا پڑا ہے اگرچہ اِس سے پہلے یہ معاملہ طے شدہ طریقہ کار کے مطابق سپریم کورٹ ہی میں حل ہو جاتا تھا۔اس آئینی ترمیم کے مطابق سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے بھی قائم ہونا ہے یہ بھی اپنی نوعیت کا پہلا تجربہ ہو گا۔ جسٹس یحییٰ آفریدی  بطور چیف جسٹس اس صورتحال میں کیسے ایک توازن اور ہم آہنگی قائم رکھتے ہیں،یہ اُن کے لئے ایک چیلنج بھی ہے اور نظام انصاف کو کسی ابہام اور الجھن سے بچانے کی ذمہ داری بھی۔ماضی کے تجربات کو دیکھتے ہوئے اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ سپریم کورٹ کے ججوں پر جانبداری اور عدم توازن کے الزامات لگتے رہے ہیں۔اب بھی یہ تاثر موجود تھا یا پھیلایا گیا کہ جسٹس منصور علی شاہ ایک خاص طرف جھکاؤ رکھتے ہیں۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے آخری دِنوں میں تو خود ججز کے درمیان ایک تقسیم نظر آئی۔ دوسری طرف قاضی فائز عیسیٰ کے بارے میں تحریک انصاف نے کھل کر اعتراضات کئے اور عمران خان نے تو یہ تک کہا وہ ایسے کیسز نہ سنیں جن میں تحریک انصاف فریق ہو۔ایسے اعتراضات کو قاضی فائز عیسیٰ نے درخواعتنا نہ  سمجھا اور بدستور ایسے بنچوں کی سربراہی کی جن میں تحریک انصاف کے کیسز موجود تھے۔چیف جسٹس کا منصب سنبھال کے جسٹس یحییٰ آفریدی کا سب سے بڑا امتحان یہی ہو گا کہ وہ سپریم کورٹ کی وحدت کو بحال کریں۔ایک ادارے کے طور پر اُس کی ساکھ بحال کر کے اس تاثر کا خاتمہ کریں کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت میں کسی بھی حوالے سے تقسیم موجود ہے۔کسی کو پسند ہو یا نہ ہو،مگر حقیقت یہ ہے وہ آئینی طور پر چیف جسٹس بنائے گئے ہیں۔ 26 ویں آئین ترمیم میں اگر اس بات کی گنجائش موجود ہے کہ سنیارٹی میں تیسرے نمبر پر آنے والے کو بھی پارلیمانی کمیٹی چیف جسٹس نامزد کر سکتی ہے تو اعتراض کا جواب نہیں بنتا۔ یہ اچھی بات ہے کہ تحریک انصاف سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں نے بھی نئے چیف جسٹس پر عدم اعتماد نہیں کیا۔بعض وکلاء رہنماؤں کی طرف سے جسٹس یحییٰ آفریدی کو مشورہ دیا جا رہا ہے وہ سنیارٹی کا خیال کرتے ہوئے منصب سنبھالنے سے انکار کر دیں۔یہ بڑا احمقانہ مشورہ ہے،اس سے تو ایک ایسی لکیر کھنچ جائے گی جو سپریم کورٹ جیسے سب سے بڑے عدالتی ادارے کی حرمت و تقدیس کے لئے مناسب نہیں۔

اس وقت سب سے اہم ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک طرف خود عدلیہ کا اعتماد بحال ہو اور دوسری طرف عدلیہ پر عوام کا اعتماد بھی قائم ہو جائے۔گزشتہ چند ماہ میں اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی طرف سے چیف جسٹس آف پاکستان کو خطوط لکھے گئے اور مختلف نوعیت کے ڈالے جانے والے دباؤ کی نشاندہی کی گئی وہ بہت سنجیدہ معاملہ ہے،جس پر نئے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کو توجہ دینی چاہئے۔عدلیہ بطور ادارہ جب تک اپنے آزادانہ وجود کو نہیں منواتی اُس وقت تک ملک میں قانون کی حکمرانی کا خواب شرمندہئ تعبیر نہیں ہو سکتا۔یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ جو چیف جسٹس پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے بنے گا وہ آزادانہ فیصلے نہیں کر سکتا۔ایک بار انتخاب کے بعد ہر قسم کا آئینی تحفظ حاصل ہو جاتا ہے اور آئین و قانون کے دائرے میں رہ کر کوئی بھی فیصلہ کرنے میں کسی بھی قسم کی رکاوٹ حائل نہیں ہو سکتی۔ جسٹس یحییٰ آفریدی اس لئے بھی خوش قسمت ہیں کہ انہیں تین سال کی مدت ملی ہے۔ وگرنہ سنیارٹی کے اصول پر چھ ماہ اور ایک سال تک کے لئے چیف جسٹس بھی بنتے رہے ہیں،جو ظاہر ہے بہتری  کے لئے دور رس اقدامات نہیں اُٹھا سکتے تھے۔ اس وقت سپریم کورٹ کے سامنے یہ معاملہ بھی اہم ہے کہ آئینی و عام کیسز کی تفریق و تقسیم کے لئے طریقہئ کار وضع کرے۔ اس ضمن میں آئینی بنچوں کی تشکیل ازحد ضروری ہے معاملات میں تعطل آ جائے گا۔ اُمید رکھنی چاہئے کہ نئے چیف جسٹس کے آنے سے حالات بہتر ہوں گے اور ہم آگے بڑھ سکیں گے۔

٭٭٭٭٭

مزید :

رائے -کالم -