قومی تقاضے، سب پر لازم، احتجاج معطل کریں 

   قومی تقاضے، سب پر لازم، احتجاج معطل کریں 
   قومی تقاضے، سب پر لازم، احتجاج معطل کریں 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پاکستان مسلم لیگ(ن) کے مرکزی صدر سابق وزیراعظم محمد نواز شریف لندن میں اپنا قیام مختصر کرکے واپس پاکستان آ گئے جس کے لئے ان کو خصوصی پرواز حاصل کرنا پڑی۔ محمد نواز شریف لندن طبی معائندے کے لئے گئے اوروہاں ان کے متعدد ٹیسٹ ہوئے۔ ڈاکٹر حضرات کے مطابق ابھی ان کو مزید قیام کی ضرورت تھی لیکن انہوں نے ملکی حالات کے باعث واپس آنا بہتر جانا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کی وادی پہلگام میں ہونے والی دہشت گردی سے خطے کے حالات میں درشتی در آئی تھی۔ بھارتی تعصب کی دیرینہ روائت کے مطابق الزام پاکستان پر دھر دیا، جس کا جواب بھی بھرپور طریقے سے دیا گیا، سابق وزیراعظم محمد نواز شریف نے اس صورت حال کے پیش نظر پاکستان میں قیام بہتر جانا، وہ واپسی کے بعد حالات سے باخبر ہو رہے ہیں تاہم سابقہ رویے کے مطابق تاحال آرام کر رہے ہیں اور حالات کا عمیق نگاہ سے جائزہ لے رہے،ان حالات میں وہ اپنے تجربات سے ضرور آگاہ کریں گے کہ ان کے دور میں سخت حالات بہتری میں تبدیل ہوئے اور پھر خراب بھی ہوئے، ان کے دور اقتدار ہی میں بی جے پی کے نمائندہ وزیراعظم واجپائی لاہور آئے اور مینار پاکستان بھی گئے تھے، چنانچہ پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے ان کو تجربہ بھی حاصل ہے۔ یقینا بھائی محمد شہباز شریف مستفید ہوں گے۔

پاکستان کی طرف سے بھارتی اقدامات کے جواب میں فوری طور پر قومی سلامتی کونسل کا اجلاس طلب کرکے جوابی فیصلے بھی کر دیئے گئے اور اس مسئلہ پر قومی اسمبلی اور سینیٹ میں بحث بھی کرائی گئی۔ مجموعی طور پر ملک میں بھارتی جارحیت کے خلاف اجتماعی موقف پایا جاتا ہے جس کا اظہار جمہوری ایوانوں کے ذریعے ہوا ہے تاہم سینیٹر اور سابق وفاقی وزیر فیصل واؤڈا کی تجویز بہت اچھی ہے جس پر فوری غور کرکے فیصلہ کرنا چاہیے تھا، انہوں نے درست کہا کہ بھارتی جارحیت ملکی سلامتی کا مسئلہ ہے اور اس پر پوری قوم ایک صفحے پر ہے تاہم اس کے مکمل اظہار کے لئے قومی سطح کے اعلامیہ کی بھی ضرورت ہے اور اسے نظر انداز نہیں کرنا چاہیے، ان کا کہنا ہے کہ وزیراعظم کو پیش قدمی کرنا چاہیے اور سکیورٹی کونسل کے بعد نیشنل ایکشن پلان کا اجلاس بلا لیا جائے اس میں تمام جماعتوں کے اکابرین شریک ہوں،وزیراعظم اپنے خصوصی اختیارات سے عمران خان کو بھی جیل سے بلا کر شریک کریں کہ مسئلہ بھارتی جارحیت کے مقابلے میں قومی سلامتی کا ہے اور اس میں کوئی تردد نہیں ہونا چاہیے۔

جہاں تک ملک کی عام زندگی کا تعلق ہے تو لوگ تشویش میں ضرور مبتلا ہوئے تاہم وہ حوصلے سے ہیں۔ یوں بھی اعلیٰ سطح پر جو اقدام کئے گئے ہیں وہ بھی اطمینان بخش ہیں۔ میرے خیال میں اعلامیہ تیار کرنے اور وزارت خارجہ کے جوابی بیان مین حالات حاضرہ اور دنیا کے رخ کا بھی اندازہ کیا گیا ہے، اسی لئے جوابی کارروائی میں وہی اقدام ہوئے جو بھارت کی حکومت نے بھی کئے تاہم پاکستان نے اضافی طور پر بلاواسطہ اور بالواسطہ اس تجارت کو ختم کر دیا جو بھارت کے ساتھ ہوتی تھی۔ بھارتی کمپنیوں نے اپنے دفاتر دوبئی میں بنا رکھے ہیں اور وہاں سے پاکستان میں بھارتی مال درآمد ہوتا ہے اور یہ اشیاء ہمیں بڑے بڑے شاپنگ مال سے مل جاتی ہیں۔ ان میں زیادہ تر خواتین کے استعمال کی اشیاء ہیں اور اس حوالے سے ہمارا اور بھارت کا تجارتی نفع نقصان بھی بھارت ہی کے حق میں ہے۔ یہ اقدام تو ویسے بھی پہلے ہونا چاہیے تھا، اگر پٹرولیم پر لیوی بڑھائی جاسکتی ہے تو براستہ یو اے ای درآمد پر ٹیکس کی شرح کیوں نہ بڑھائی گئی کہ جو اشرافیہ درآمدی سامان تعیش یا آرائش کے لئے اشیاء خریدتی ہے وہ بھاری ٹیکس بھی ادا کرے۔ بہرحال میرے نزدیک یہ اضافی جواب ہے اور ہونا چاہیے،واہگہ کی سرحد بند کرنے سے جو ٹرانزٹ ٹریڈ رک گئی اس سے گو برادر ملک افغانستان بھی متاثر ہو گا لیکن یہ شکائت تو دور ہوگی کہ بھارت کے راستے جو سامان افغانستان میں درآمد ہوتا ہے وہ راستے میں ہی کسی مقام پر ملکی مارکیٹ میں آ جاتا ہے۔اس سہولت کے ذریعے جو سامان منگوایا جاتا ہے،وہ چیک ہو جانے پر ایسا ہوتا ہے جس کی افغانستان میں کھپت نہیں اور یہ اشیاء پاکستان ہی میں فروخت ہوتی ہیں۔

پاکستان کی طرف سے واشگاف الفاظ میں جو وارننگ دی گئی وہ خالی خولی دھمکی نہ سمجھی جائے۔ بھارت کی برسراقتدار جنتا اور انتہاء پسند ہندوؤں نے کبھی بھی اپنے ارادے چھپا کرنہیں رکھے۔ ایک طرف بھارت میں بسنے والی اقلیتیں ان کی زد پر ہیں ان میں خصوصی طور پر مسلمان نشانہ ہیں  اور اب پہلگام کے واقع کو جس انداز سے اچھالا گیا اس نے اور شدت پیدا کر دی۔ بھارت میں مسلمانوں پر پھر تشدد بڑھا دیا گیا اور کشمیریوں کے خلاف تو بہانہ چاہیے تھا اب مقبوضہ کشمیر سے سینکڑوں نوجوان گرفتار کرلئے گئے ہیں، یہ سلسلہ یوں تو نیا نہیں، اسی پہلگام کے بیسیوں نوجوان شہید ہو چکے اور اس سے کہیں زیادہ جیلوں میں ہیں او ران کی داد فریاد بھی نہیں،یہ صورت حال سری نگر اور کشمیر کے دوسرے علاقوں کی بھی ہے اب اگر کوئی نوجوان اپنی اور اپنے خاندانوں کی توہین کا بدلہ لینے کے لے بھی سربکف ہو جائیں تو ان کو کیا کہا جا سکتا ہے۔ خود بے جے پی حکومت نو لاکھ فوج اور پیرا ملٹری فورسز کے ذریعے کشمیر کو ایک بڑی جیل بنا کر بیٹھی ہے اور بقول مودی وہ یہ مسئلہ حل کر چکے حالانکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں یہ تنازعہ موجود ہے۔

پاک بھارت ٹینشن کی وجہ سے دنیا کو غور کرنا چاہیے، دکھ کا مقام ہے کہ بھارتی رویے پر شدید ردعمل نہیں آیا، امریکہ کی طرف سے حالات کا جائزہ لینے اور جموں و کشمیر کے حوالے سے کوئی پوزیشن نہ لینے کا بیان سامنے آیا ہے اگرچہ یہ ردعمل بھی غیر منصفانہ ہے تاہم اس حد سے آگے بڑھ کر بھارت دوستی نہیں کی گئی تو غنیمت ہے۔ پاکستان کے دفتر خارجہ نے سفیروں کو بلا کر بریف کیا یہ اچھا اقدام ہے اور ہمیں اس پہلو کا دھیان رکھنا ہوگا اور دوست ممالک کو خصوصی طور پر اپنے موقف کا قائل کرنا ہوگا کہ ابھی تک او آئی سی کے کسی ملک نے بھی اس صورت حال پر بات نہیں کی جبکہ ”دہشت گردی“ کی مذمت پہلے سعودی ولی عہد نے کی تھی۔

میں نے جو کچھ بھی عرض کیا اس کی ذمہ داری لیتا ہوں اور اب جو عرض کروں گا وہ بھی اپنی ہی بساط کے مطابق ہوگی۔ مجھے دکھ ہے کہ اس بڑھاپے اور 63سالہ صحافتی زندگی میں ایسا نہیں دیکھا کہ سیاسی قائدین بچوں کی طرح روٹھے رہیں، معاف کیجئے گا نہ تو تحریک انصاف کا رویہ قومی امنگوں کے مطابق ہے اور نہ ہی سندھ کے قوم پرستوں کے لئے یہ صورت حال متاثر کن ہے کہ وزیراعظم نے دیر آید، درست آید کے مطابق بھی پیپلزپارٹی کو بلا کر واضح کر دیا کہ نہروں کے حوالے سے کوئی کارروائی یا ترقیاتی کام نہیں ہوگا اور 2مئی کو اس مسئلہ پر مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس ہوگا جس میں یہ مسئلہ زیر غور آئے گا اور فیصلہ چاروں صوبوں کے اتفاق ہی سے ہوگا۔ سندھ کے قوم پرست اب بھی جلوس نکال رہے اور وکلاء دھرنا دیئے بیٹھے۔ قومی شاہراہ نہیں کھول رہے اور مال بردار ٹرک، ٹریلر اور پٹرولیم والی گاڑیاں بھی کئی روز سے رکی کھڑی اور قومی نقصان ہو رہا ہے، جتنے لوگ دھرنے والے ہیں، اگر سندھ حکومت دباؤ کے تحت رعائت  نہ کرتی تو یہ ایک گھنٹہ بھی بیٹھ نہیں سکتے اس لئے بہتر ہوگا کہ حالات کا اندازہ لگائیں اور اسے بہادری نہ جانیں اور اب اس وقت تک تو احتجاج معطل کریں جب تک حتمی فیصلہ سامنے نہیں آتا۔

مزید :

رائے -کالم -