ڈاکٹر محمد اسلم ڈوگر کے شہ پارے اور تیسرا رخ

  ڈاکٹر محمد اسلم ڈوگر کے شہ پارے اور تیسرا رخ
  ڈاکٹر محمد اسلم ڈوگر کے شہ پارے اور تیسرا رخ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کتابوں کا عالمی دن منایا گیا تو اس مناسبت سے ایمرسن یونیورسٹی ملتان میں ایک سیمینار بھی ہوا،جس میں تین یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز بھی موجود تے۔ان میں ایمرسن یونیورسٹی کے ڈاکٹر محمد رمضان، صادق ایجرٹن، ویمن یونیورسٹی بہاؤلپور کی ڈاکٹر شازیہ انجم اور ویمن یونیورسٹی ملتان کی ڈاکٹر کلثوم پراچہ شامل ہیں۔اس سیمینار میں جہاں کتابوں کی انسانی معاشروں میں افادیت پر روشنی ڈالی گئی وہاں اس بات پر بھی توجہ دلائی گئی کہ کتابوں کے موضوعات میں تنوع ہونا چاہئے، کتابوں کی قیمتیں کم کرنے کی تجاویز بھی دی گئیں۔اسی دن مجھے لاہور سے ڈاکٹر محمد اسلم ڈوگر  کی نئی کتاب ”تیسرا رخ“ ملی۔اس کتاب کو دیکھ کر میں یہ کہنے پر مجبور ہو گیا کہ موضوعات کے جس تنوع کی بات سیمینار میں کی گئی تھی،یہ کتاب اس پر پورا اترتی ہے۔ ڈاکٹر محمد اسلم ڈوگر کو ایک کالم نگار اور دانشور کی حیثیت سے پورا ملک جانتا ہے۔ تاہم اس کتاب میں وہ ایک فلسفی، صوفی اور درویش بن کر سامنے آئے ہیں۔میں یہاں جناب مجیب الرحمن شامی کی رائے سب سے پہلے درج کروں گا۔وہ لکھتے ہیں ”مطالعے کے رسیا تو وہ تھے ہی، مشاہدے سے بھی بہت کچھ سیکھا ہے۔ایک دنیا دیکھی اور آنکھوں میں بٹھا لی۔ قلم اٹھاتے ہیں تو یوں لگتا ہے دبے پاؤں چل رہے ہیں،لوہار نہیں سونار ہیں۔اُن کے ہاں بھٹی ہے نہ ہتھوڑا، ضرب کاری تو کیا ضرب ”بے کاری“ کے بھی قائل نہیں،خیالات کے سونے پر لفظوں کے نگینے جڑتے اور کالم کا زیور بنا لیتے ہیں،جوڑی، انگوٹھی، پازیب، جھومر، گلو بند ان کو بہت کچھ بنانا آتا ہے،لیکن بناتے زیور ہی ہیں“۔ شامی صاحب کی اس رائے سے ڈاکٹر محمد اسلم ڈوگر کی قلم کاری کا جو تاثر بنتا ہے وہ اس قدر ہمہ گیر ہے کہ قاری کے تجسس کو بڑھا دیتا ہے۔اس کتاب کے پس ورق پر جو آراء موجود ہیں، وہ زیادہ تر اُن کے کالموں کی نسبت سے ہیں۔بلاشبہ اُن کا اسلوب اور کالم منفرد ہوتے ہیں، لیکن جہاں تک  اُن کی اس کتاب تیسرا رخ کا تعلق ہے تو اس میں وہ اُس ڈاکٹر محمد اسلم ڈوگر کو بہت پیچھے چھوڑ آئے ہیں،جو اُن کی پامسٹری، کالم نگاری، افسری، آسٹرلوجی اور مضمون نویسی میں نظر آتا ہے۔تیسرا رخ میں اُن کا واقعی ایک نیا رخ سامنے آتا ہے۔ایک ایسا رخ کہ جو زندگی کے اسرار کو کھولتا ہے اور زندگی گذارنے کے سلیقے کھاتا ہے۔ اس کتاب میں شاعری ہے اور نہ فنکشن، ثقیل موضوعات پر مضامین ہیں اور نہ دقیق پہلوؤں پر سمع فراشی، اس میں چھوٹے چھوٹے فن پارے ہیں،انہیں آپ چاہیں تو افسانچے بھی کہہ سکتے ہیں اور چاہیں تو اقوال زریں بھی،یہ زندگی کے اسی طویل سفر کا نچوڑ ہے، جو ڈاکٹر محمد اسلم ڈوگر نے طے کیا ہے۔اس سفر میں انہیں زادِ راہ کے طور پر جو کچھ ملا، انہوں نے  اُسے اپنے ان مختصر  پاروں میں بیان کر دیا ہے۔اس لحاظ سے یہ کتاب ایک بڑا جہان معانی رکھتی ہے۔ایک ایسا عرفان ذات کی گرہیں کھولتا جہان جو بہت سوں کی زندگی بدل سکتا ہے۔

اس کتاب کے گیارہ ابواب ہیں،جن کے عنوانات یہ ہیں،تیسرا رخ، مذہب، سیاست، کلچر، عشق، میڈیا، سوشل میڈیا، علم، شہرت، واقعات و مقولے۔ ہر باب میں اس موضوع پر مصنف نے چھوٹے چھوٹے مقولوں، واقعات، فن پاروں اور خیالات کے ذریعے بہت سی ایسی گرہیں کھولنے کی کوشش کی ہے جو ہماری زندگی میں آخر تک پڑی رہتی ہیں۔ ہر مختصر پارے کا عنوان بھی دیا گیا ہے جو اس کی معنویت کو دوچند کر دیتا ہے۔ دو مثالیں دیکھئے:

٭……  دھوکہ:

 مطمئن رہنے کے لئے لوگ

 سب سے زیادہ

 اپنے آپ کو دھوکہ دیتے ہیں 

٭……  قابل ِ رشک آزادی:

دورِ جدید میں کتے کی آزادی قابلِ رشک ہو گئی ہے۔

کیونکہ وہ اپنی مرضی سے بھونکتا ہے۔

ڈاکٹر محمد اسلم ڈوگر ایک بے بصیرت معاشرے میں بصیرت کے وہ موتی اُجالنا چاہتے ہیں،جو فی زمانہ لوگوں کے لئے بے معنی ہو چکے ہیں۔ہم ایک ایسی لہر میں بہتے چلے جا رہے ہیں جو ہماری اقدار، مذہب اور انسانی روایات سے بعید ہے۔ ہمیں اس پڑھی ہوئی تاریخ میں یہ تک معلوم نہیں کہ اصل راستہ کیا ہے اور جعلی کون سا ہے، ہمارے سامنے کوئی عقل و بصیرت کی بات کرے تو اسے بے وقوف سمجھنے لگتے ہیں اسے اِس دنیا اسی زمانے کا بندہ ہی نہیں سمجھتے۔ ڈاکٹر محمد اسلم ڈوگر کی اس کتاب میں ایک ایسا ہی صوفی اور مردِ خود آگاہ نظر آیا ہے جو صحرا میں اذان دے رہا ہے،جو عقل و ادراک کے چراغ جلانے کی کوشش کر رہا ہے،جس کے ایک ایک لفظ ہے،زندگی کو کشید کرنے کی رمق موجود ہے۔ 211صفحات کی اس کتاب میں ڈاکٹر محمد اسلم ڈوگر نے ہزاروں ایسے موتی بکھیر دیئے ہیں جو تاریک راستوں کو روشن کر سکتے ہیں۔اس کتاب میں مصنف نے سچ کو اپنا سب سے بڑا ہتھیار بنایا ہے۔سچ کہنے کی جرأت بھی اُن کے ہاں نظر آتی ہے۔مصلحت اور بزدلی سے کوسوں دور رہ کر انہوں نے وہ سب کچھ کہہ دیا ہے جو اُن کے وجدان نے اُن پر منکشف کیا۔یہ ایک ایسی دستاویز ہے جو زندگی گزارنے کے اشاریے کی حیثیت رکھتی ہے،کسی بھی موضوع پر رہنمائی کا ایک روزن اس کتاب میں موجود اقوال سے کھلتا ہے۔اسی دورِ پُرہنگام میں کہ جب معاشرے کو مختلف الجھنوں میں ڈال کر بے سمتی کی آماج گاہ بنا دیا گیا ہے۔ڈاکٹر محمد اسلم ڈوگر نے اس کتاب کے ذریعے ایک راہ دکھانے کی کوشش کی ہے۔اس کتاب کے ہر صفحے پر علم و عرفان کے بے بہا موتی موجود ہیں۔ کہتے ہیں کہ کوئی ایک سطر انسان کی زندگی بدل سکتی ہے۔مجھے تیسرا رخ میں ہر صفحے پر ایسی سطور ملی ہیں جو ظلمت ِ شب اور ظلمت ِ جہالت کو ختم کرنے کا سبب بنتی ہیں۔ڈاکٹر محمد اسلم ڈوگرنے اپنے شہ پاروں کو یکجا کر کے زندگی کے اسرار و رموز کو بکھرنے سے بچا لیا ہے۔اس خوبصورت کتاب کو سنگ میل پبلی کیشنز نے بہت خوبصورتی کے ساتھ شائع کیا ہے۔

٭٭٭٭٭

مزید :

رائے -کالم -