یہ غلطی کسی سانحہ سے کم نہیں

21دسمبر کو ایک قومی سطح کے بڑے اخبار کے صفحہئ اول پر قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری کی 38 ویں برسی کے حوالے سے خبر شائع ہوئی۔ انتہائی دکھ، تکلیف اور حیرت کی بات یہ ہے کہ خبر کے ساتھ جو تصویر شائع کی گئی وہ حفیظ جالندھری کی نہیں تھی بلکہ جگن ناتھ آزاد کی تھی۔ اس فاش اور سنگین غلطی کی وجہ کیا ہو سکتی ہے۔ کیا اخبارات میں کام کرنے والے سینئر ترین صحافیوں کو قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری کی بھی پہچان نہیں۔ جگن ناتھ آزاد کی تصویر یقیناً انٹرنیٹ سے لی گئی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ پاکستان کے قومی ترانے سے جگن ناتھ آزاد کا تعلق کیا ہے؟ کچھ عرصہ پہلے پاکستان کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر یہ شر انگیزی کی گئی تھی اور ایک سب سے بڑا جھوٹ تراشا گیا تھا کہ قائد اعظم نے 9 اگست 1947ء کو خود جگن ناتھ آزاد سے پاکستان کا ترانہ لکھنے کو کہا تھا اور قائد اعظم کی منظوری کے بعد جگن ناتھ آزاد کا لکھا ہوا ترانہ پاکستان کی آزادی کے اعلان کے بعد ریڈیو پاکستان سے نشر بھی کیا گیا تھا۔ 29 سال کے جگن ناتھ آزاد کی نہ تو شاعر کے حوالے سے کوئی اس سطح کی شہرت تھی کہ وہ قیام پاکستان سے پہلے پورے ہندوستان میں بطور شاعر اپنی کوئی شناخت رکھتے تھے۔ نہ ہی قائد اعظمؒ سے ان کا کوئی تعارف تھا۔ ویکیپیڈیا میں جگن ناتھ آزاد کو قائد اعظمؒ کا دوست لکھا گیا ہے اور یہ جھوٹا دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ قائداعظمؒ نے اپنے دوست کو بلا کر 9 اگست 1947ء کو پاکستان کا ترانہ لکھنے کی دعوت دی تھی۔ قائد اعظمؒ پاکستان کے گورنر جنرل تھے۔ ان کے ساتھ ملاقات کے لئے یقیناً پہلے وقت لیا جاتا تھا۔ پھر ملاقات کرنے والوں کا ریکارڈ بھی محفوظ ہوتا ہے۔
جس شاعر کو قائد اعظمؒ نے خود پاکستان کا ترانہ لکھنے کے لئے کہا ہو اور پھر وہ شاعر 5 دن میں ترانہ لکھ کر قائد اعظمؒ کے حوالے کر دیتا ہو۔ اس شاعر کی ملاقاتوں کا ریکارڈ تو لازمی طور پر محفوظ ہونا چاہئے۔ پھر قائداعظمؒ اپنی منظوری کے بعد ریڈیو پاکستان کے سپرد یہ ترانہ کر دیتے ہیں۔ وہاں بھی اس کا ریکارڈ ہونا چاہئے۔ پھر یہ دعویٰ بھی کیا جاتا ہے کہ 18 ماہ تک یہ ترانہ ریڈیو پاکستان پر پیش کیا جاتا رہا۔ مگر اس کا بھی کوئی ریکارڈ کہیں موجود نہیں۔ ظاہر ہے کہ جھوٹ کے چاہے جتنے بھی پل باندھ دیئے جائیں۔ جھوٹ، جھوٹ ہی رہتا ہے۔ جھوٹی بات ہمیشہ بے بنیاد ہوتی ہے۔ جس طرح جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے اسی طرح جھوٹ کا کوئی ریکارڈ بھی نہیں ہوتا۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ قائداعظمؒ جیسا آئین پسند شخص پاکستان کے لئے لکھوائے گئے کسی ترانے کو بغیر کسی کی مشاورت کے خود ہی منتخب کر لے۔ آخر ترانے کے معیار کو جانچنے کے لئے بھی نامور اور سکہ بند شاعروں کی ایک ٹیم کی ضرورت تھی۔ قائداعظمؒ نے جگن ناتھ آزاد کے ترانے (جس کا وجود ہی نہیں تھا) کو منتخب کرنے کے لئے کن شعرا سے ملاقات کی تھی۔ کیا اس کا کوئی ریکارڈ کہیں ہے۔ پروفیسر احمد سعید کی کتاب ”وزیٹرز آف قائد اعظم“ میں سات سال کا ریکارڈ محفوظ کر دیا گیا ہے۔ پروفیسر احمد سعید سے خود میری بات ہوئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جگن ناتھ آزاد کی قائداعظمؒ سے ملاقات سب سے بڑا جھوٹ ہے۔ کیا قائداعظمؒ نے پاکستان کا پہلا ترانہ لکھوانے کے لئے جگن ناتھ آزاد سے کوئی خفیہ ملاقات کی تھی۔
اتنا بڑا جھوٹ گھڑنے والوں کو کچھ تو شرم محسوس کرنی چاہئے۔ سید انصار ناصری کو یہ شرف حاصل ہے کہ انہوں نے قائداعظمؒ کی تین جون 1947ء والی تقریر کا اُردو ترجمہ آل انڈیا ریڈیو سے اپنی آواز میں نشر کیا تھا۔ انصار ناصری نے اپنی کتاب ”پاکستان زندہ باد“ میں قائداعظمؒ کی کراچی آمد 7اگست سے لے کر 15 اگست تک ان کی مصروفیات کا ذکر کیا ہے۔ اس میں بھی جگن ناتھ آزاد کا کوئی ذکر نہیں۔ قائد اعظمؒ کے اے ڈی سی جناب عطاء ربانی سے میری لاہور میں ملاقات ہوئی تھی جہاں وہ اپنی بیٹی سے ملنے کراچی سے آئے تھے۔ جناب عطاء ربانی نے بھی دو ٹوک انداز میں فرمایا کہ جگن ناتھ آزاد نام کا کوئی شخص 7 اگست سے 15 اگست 1947ء تک قائد اعظمؒ کے ساتھ نہیں ملا اور نہ ہی بعد میں قائداعظمؒ کی زبان سے ایسے شخص کا نام سنا جس کو قائد اعظمؒ کا دوست کہا جا رہا ہے۔ جگن ناتھ آزاد کا دعویٰ صرف ریڈیو لاہور سے 14اگست اور 15 اگست کی درمیانی شب کو اپنا ترانہ سننے کا ہے۔ لیکن یہ دعویٰ بھی سراسر جھوٹ ہے کیوں کہ ریڈیو پاکستان کا ریکارڈ اس کی تائید نہیں کرتا۔ پاکستان کا قومی ترانہ وہی تھا جس کی دھن 14 مئی 1949ء کو منظور کی گئی اور جنوری 1954ء میں اس دھن کے عین مطابق حفیظ جالندھری کا ترانہ حکومت پاکستان نے منظور کیا۔ 13 اگست 1954ء کو قومی ترانہ حفیظ جالندھری کی اپنی آواز میں ریڈیو پاکستان پر نشر کیا گیا۔ قومی ترانہ کے کل 15 مصرے ہیں۔ قومی ترانہ فارسی زبان میں لکھا گیا۔ پورے قومی ترانے میں صرف ایک لفظ اردو زبان کا استعمال ہوا۔ اور وہ لفظ ہے ”کا“۔
پاک سر زمین کا نظام
قوتِ اخوتِ عوام
حفیظ جالندھری کا نام قومی ترانہ کے خالق کے طور پر ہر محب وطن پاکستانی کے دل میں تابہ ابد زندہ رہے گا۔ قومی ترانے کی دھن اور الفاظ جب بھی ہمارے کانوں میں گونجتے اور دلوں کے تار چھیڑتے ہیں۔ حفیظ جالندھری کی تصویر خودبخود ہمارے ذہنوں میں ابھر آتی ہے۔ افسوس ہوا کہ اخبار میں خبر تو قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری کی شائع کی گئی، مگر تصویر جگن ناتھ آزاد کی چھاپ دی گئی۔ یہ ایک ناقابل معافی غلطی ہے۔ اس غلطی کا کوئی عذر بھی قابل قبول نہیں ہو سکتا۔ جس صحافی کو یا جس اخبار کے ذمہ داران کو حفیظ جالندھری اور جگن ناتھ آزاد کا فرق معلوم نہیں اور جس پاکستانی صحافی کو حفیظ جالندھری کی بھی پہچان نہیں۔ مَیں بڑے احترام سے عرض کروں گا کہ اسے صحافی برادری میں شمار نہیں کیا جا سکتا۔ یہ غلطی کسی سانحہ سے کم نہیں کہ ہم حفیظ جالندھری کی برسی کے موقع پر قومی ترانے کے خالق کے طور پر جگن ناتھ آزاد کی تصویر شائع کر دیں۔ کیا ہم اتنے کند ذہن ہیں کیا ہماری آنکھیں نہیں کہ ہم اپنے عظیم اور پیارے وطن کے قومی ترانہ کے خالق کی تصویر کی شناخت بھی نہیں رکھتے۔